پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے کیلئے کوششیں کافی عرصے جاری تھیں .2015، میں جب سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ،کویت ،مصر ،مراکش نے یمن کے خلاف فوجی کروائی شروع کی اس وقت بھی پاکستان سے فوجی مدد کی درخوست کی گئی تھی .اس وقت نواز شریف وزیر اعظم تھے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف .اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس پر بحث کی اور اتفاق راۓ سے یہ فیصلہ کیا کہ دو مسلم ممالک کی لڑائی میں پاکستان اپنی فوج نہیں بھیجے گا .گو اس وقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس پر نا راضگی کا اظہار کیا .لیکن اس بارے میں گفتگو ہوتی رہی .اس واقعہ کے بعد ہی ایک اسلامی فوج کا قیام عمل میں لایا گیا .جس کے سربراہ بعد میں راحیل شریف مقرر ہوۓ .جو ابھی تک سعودی عرب ہی میں ہیں .اس فوج کی تعداد کتنی ہے اور وہ کس قسم کے جنگی سازوسامان سے لیس ہے .اسکے بارے میں کوئی معلومات جاری نہیں کی گئیں .
اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے خلاف نہیں .سعودی حکومت کے ایک ترجمان پہلے ہی اس کی وضاعت کر چکے ہیں کہ اس دو طرفہ معاہدہ کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں. ارض مقدس کی حفاظت کےنعرے صرف پاکستانی عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے لگاۓ جا رہے ہیں
اسرائیل میں امریکی سفیر نے کل اپنے ایک بیان کہا ہے کہ امریکہ گلف ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے کہ حماس کی مکمل شکست کے بعد ،غزہ کی پٹی میں معاملات کیسے چلاۓ جائیں گے .اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے عربوں کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ اس خطے میں امن قائم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ غزہ کو فلسطینی آبادی سے مکمل خالی کرایا جاۓ .اگر ایسا ہوتا ہے تو ان عرب ممالک کو یہ خدشہ ہے کہ عوام انکے خلاف اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں .سعودی عرب کو اس اندرونی خطرے سے نمٹنے کیلئے پاکستانی فوج درکار ہو گی . غزہ سے فراغت کے بعد ،امریکہ ،اسرائیل اور گلف ممالک یمن میں حوتی جنگجووں کو بھی سبق سکھانا چاہتے ہیں .کیونکہ اس خطے میں یمن ہی وہ واحد ملک ہے جو ڈٹ کر ان سب کا مقابلہ کر رہا ہے
حوتیوں کو شکست دینے اور یہاں سے ایران کا اثر و رسوخ ختم کرنے کیلئے یمن کے خلاف زمینی کاروائی ضروری ہو گی .کیونکہ اسرائیل اور امریکہ فضائی حملوں سےانکا کوئی خاص نقصان نہیں کر سکے .پاک ،سعودی دفاعی معاہدہ کا ایک مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ اگر یمن کے خلاف زمینی کاروائی کرنی پڑے تو پاکستانی فوج کو استعمال کیا جا سکے .اسلئیے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ معاہدہ امریکی رضامندی اور اجازت سے کیا گیا ہے .
امریکی صدر نے دو دن پہلے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان بگرام کا ہوائی اڈا امریکہ کے حوالے کر دیں تو انکی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے .جبکہ افغان حکومتی ترجمان نے کہا کہ ایسا کسی صورت نہیں کیا جا سکتا .یہ ایک طرح سے امریکی دھمکی ہے کہ اگر افغان حکومت ایسا نہیں کرتی تو طالبان کے خلاف کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے .پاکستان ،ٹی -ٹی -پی کے حوالے سے طالبان سے نا راض ہے .جبکہ دوسری طرف امریکہ ،افغانستان میں چین کے بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ کی وجہ سے پریشان ....
امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بھی کسی طریقے سے دوریاں پیدا کی جائیں .پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان اور چین کے تعلقات میں سرد مہری کی کیفیت طاری ہے .چین کو پاکستانی حکومت اور فوج سے کافی شکایات ہیں .یہی وجہ ہے کہ چین نے ریلوے کے M-1,منصوبے میں سرمایہ کاری سے انکار کر دیا ہے .اسکے ساتھ ساتھ چینی کمپینوں کو پیسوں کی ادائیگی میں بھی بہت سی مشکلات ہیں .
پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں .امریکہ سعودی عرب کو ساتھ ملا کر ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے .جس سے پاکستان ،چین اور افغانستان کے درمیان تعلقات اور خراب ہوں .
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ خود پاکستان کو کچھ دینا نہیں چاہتا .گو اس نے پاکستان میں ہونے والے مظالم پر چشم پوشی اختیار رکھی ہے .موجودہ حکومت اور اسکے پیچھے بیٹھے اصل حاکموں کو اس وقت امریکہ سے یہی کچھ درکار ہے .باقی جہاں تک مالی امداد کا تعلق ہے .وہ بل ،سعودی عرب ادا کرۓ گا .
اب یہ پاکستانی حکومت اور فوج کی مرضی ہے کہ وہ ایک قابل اعتماد دوست (چین )کو چھوڑ کر اس ملک کے ساتھ جانا پسندکرتے ہیں .جس نے ہر مشکل وقت میں ہمیں دھوکہ دیا .
ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکمران اپنے وقتی اور ذاتی فائدے کیلئے پھر وہی کریں گے جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں .اس طرح یہ اپنی تجوریاں تو بھر لیں گے جبکہ ہمیشہ کی طرح اسکا نقصان عوام کو برداشت کرنا پڑے گا .
No comments:
Post a Comment