Saturday, 6 September 2025

!چوراں دےکپڑے -ڈاگاں دے گز

زیادہ عرصہ نہیں گزرا  درجنوں چینلز پر ہر روز ماتم  بر پہ  ہوتا تھا .سینکڑوں  دہاڑی دار جو قصر نفسی سے کام لیتے ہوۓ خود کو عوام کے ہمدرد کہتے تھے .با آواز بلند واویلا کرتے نہیں تھکتے تھے .کہ عمران خان کی حکومت نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے .مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے .اشیاء ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں .ایسا لگتا تھا کہ ،اخبار اور ٹی -وی اپنے مالکان سمیت عوام کے دکھ میں ،گھل گھل کر موت سے ہمکنار ہو جائیں گے .
اچانک وقت بدلتا ہے .عمران خان کی حکومت ختم کی جاتی ہے .پھر ایسا لگتا ہے کہ سینہ کوبی کرنے والوں پر موت کا سکوت طاری ہو گیا ہے .ایک (یونک )اسمبلی میں اعلان کرتا ہے .ویلکم ٹو پرانا پاکستان !مہنگائی جو پہلے  آسمان سے باتیں کر رہی تھی .وہ ساتواں آسمان پھاڑ کر اوپر نکل جاتی ہے .لیکن مجال ہے کہ کہیں سے کوئی آواز نکلے .عوام کے دکھ درد میں عمران خان کے گلے پڑنے والے ،حرام سے اپنا پیٹ بھرنے کے بعد ایسی نیند سوتے ہیں .جیسے موت کے گھاٹ اتر چکے ہوں .شائد انھیں وہ مغلظات اب سنائی نہیں دیتی جو سننے کیلئے انھیں بازار جانا پڑتا تھا .یا شائد انھیں اب روکڑا نہیں ملتا کہ وہ بازار جا کر عوام کی مشکلات جاننے میں اپنا قیمتی وقت ضایع کریں .
اس مضمون  کے عنوان کا مقصد آپ سب کی توجہ اس لوٹ مار کی جانب مبذول کروانا ہے .جو اس وقت ملک میں پوری شدت سے جاری و ساری ہے .اشرافیہ کی فرعونی تکون ،جس میں اقتدار پر قابض ٹولہ یعنی سیاستدان ،نوکر شاہی بمعہ خاکی افسر شاہی اور سرمایہ دار سب شامل ہیں .دونوں ہاتھوں سے عوام کی خون پسینے کی کمائی لوٹ رہے ہیں .انکے لیے سب کچھ مفت ہے اور جب عوام کو کچھ دینے کی باری آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے .انکے پیٹ کا جہنم بھرنے کیلئے خزانے میں کوئی کمی نہیں .اس ڈاکے میں مولوی بھی اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر رہا ہے اور عوام کو یہ گولی دی جاتی ہے کہ غریب اسلئیے غریب ہے کہ یہ خدا کی مرضی ہے .اپنی لوٹ مار کو خدا کی مرضی قرار دے کر اپنی نا جائز دولت کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں .
پچھلے تین سالوں میں یہ فرعونی مافیا صرف بجلی اور گیس کے بلوں میں عوام سے اربوں روپے لوٹ چکے ہیں .اگر ایک مرتبہ آپ کا بجلی کا بل دو سو سے ایک یونٹ زیادہ آ گیا تو آپ سے چونتیس روپے فی یونٹ بل وصول کیا جاۓ گا .بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اگلے چھ مہینے اگر آپ کا بل دو سو یا سو یونٹ سے بھی کم آتا ہے تو بھی آپ سے چونتیس روپے فی یونٹ کے حساب سے ہی بل وصول کیا جاۓ گا .یعنی آپ نے دو سو سے زاہد یونٹ استعمال کر کے جو جرم کیا ہے اسکا خمیازہ آپ کو اگلے چھ مہینے بگھتنا پڑے گا . 
جبکہ اشرافیہ میں سے کچھ کو چھ سو ،کسی کو بارہ سو ،کسی کو دو ہزار اور کسی کو تین ہزار یونٹ بجلی مفت ہے .کیوں جناب کیا اشرافیہ کی (نکی )یا (نکیاں )عوام نے رہن رکھی ہوئی ہیں .
اسی طرح گیس کے بلوں میں بھی (یکی )کی جا رہی ہے .ہر شخص اپنے گیس کے بل پر غور کرۓ تو اسے دن دھاڑے ڈاکے کی سمجھ آ جاۓ گی .جتنی آپ نے گیس استعمال کی ہے .اسکے علاوہ فکس چارجز اور پھر سیکورٹی ڈپازٹ بھی وصول کیا جا رہا ہے .ٹیکس اسکے علاوہ ہے .بندہ پوچھے کیا ہم انگریز کی غلامی کے دور میں رہ رہے ہیں .
ہماری آواز سننے والا کوئی ہے ؟ کیا یہ ملک اسی لئیے بنا تھا کہ اشرافیہ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عیاشی کرۓ ..اور عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کیلئے ترستی رہے ؟
ہمیں اخبار میں تلاش گمشدہ کا اشتہار دینا چاہیے ان لوگوں کیلئے .جو عمران خان کے ساڑے تین سالہ دور حکومت میں ، ،ڈاکٹر کے نسخے کے مطابق ، صبح ،دوپہر ،شام مہنگائی کا رونا روتے تھے .
اب تو ایسا لگتا ہے کہ .....پاکستان کا مطلب کیا ...... 
چوراں دے کپڑے .تے .ڈاگان دے گز !

Thursday, 4 September 2025

!لوگ کیاکہیں گے

ہماری زندگیاں یہ سوچتے گزر جاتی ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے .لوگوں کو خوش کرتے کرتے ،ہماری اپنی زندگیاں جہنم بن جاتی ہیں .لیکن لوگ ،اپنے ہوں یا پرائے ،کبھی بھی آپ سے خوش یا راضی نہیں ہوتے . 
ضروری یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے .لوگوں کیلئے نہیں بلکہ اپنے لیے !
آئیں دیکھتے ہیں اس بارے میں اہل علم و دانش کیا کہتے ہیں .
ایک ریڈ انڈین قول  کہ ،جب آپ  پیدا ہوۓ ،تو آپ روۓ  اور دنیا نے خوشی منائی تھی .اپنی زندگی ایسے جیو کہ جب آپ  مریں  ،تو دنیا روۓ اور آپ خوش ہوں  !
سب سے بڑی بیماری یہ سوچنا ہے کہ لوگ کیا  کہیں گے .
لوگ کیا کہیں گے .اس ایک جملے نے دنیا میں جتنے خوابوں کو تباہ و برباد کیا ہے .اتنا کسی اور نے نہیں کیا .
زندگی کی سب سے بڑی خوشی ،وہ کرنا ہے .جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ نہیں کر سکتے ! والٹر بیگہارٹ .
میں پوری ایمانداری سے یہ کہتا ہوں کہ مجھے اس میں کبھی دلچسپی نہیں رہی کہ لوگ کیا کہتے ہیں .کیونکہ لوگوں کی راۓ موسم کی طرح ہوتی ہے .ایک لمحے آپ بہترین ہیں اور اگلے لمحے آپ کچھ بھی نہیں .(جوڈ بیلینگھم )...
مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں .میں جیسا بھی ہوں .مجھے پسند ہے .اورکسے  پروا ہے کہ لوگ کیا کہتے ہیں . (کاسٹر سمینیا )...
میں واقعی اس بارے میں نہیں سوچتا کہ دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں .میری کوشش یہ ہے کہ اس پر توجہ مرکوز کروں .جو میں کر رہا ہوں .بنیادی مقصد یہ ہے کہ کوشش کریں اور کامیاب ہوں . (لنڈو نورس )
لوگ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں .اسکی فکر کرنے کی بجاۓ .کیوں نہ کچھ ایسا کرنے میں اپنا وقت صرف کریں . جس کی ہر کوئی تعریف کرۓ  ....(ڈیل کارنیگی ).
جتنی میری عمر بڑھتی جاتی ہے .مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں .میں وہی کرتا ہوں .جو مجھے متحرک رکھتا ہے . (ٹومی لی )....
یہ ہمارے اختیار میں نہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں . (سرفراز احمد )....
اگر آپ اس بارے میں فکر مند رہیں گے کہ لوگ کیا کہتے ہیں .تو آپ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے . 
(جوزف مرے )....
ہر وہ چیز جو لوگ کہتے تھے .میں نہیں کر سکتا .میں نے کر کے دکھائی ..(فلائیڈ مے ویدر، جونیئر)....
زندگی مختصر ہے .اس میں وقت ضایع نہ کریں کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ....
آپ ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے .بہترین عمل جو آپ کر سکتے ہیں .وہ یہ ہے کہ اپنے آپ پر یقین رکھیں اور وہ کریں جسے آپ درست سمجھتے ہیں ....
میں آپ کو کامیابی کی کنجی نہیں بتا سکتا . لیکن میں آپکو یہ بتا سکتا ہوں کہ نا کامی کی کنجی یہ ہے کہ آپ ہر کسی کو خوش کرنے کی کوشش کریں ...(ایڈ شیرن )..
آپ اپنی زندگی دوسروں کی توقعات کے مطابق نہیں گزار سکتے !


Sunday, 24 August 2025

!تاریخ کا سبق

ایک جاپانی کہاوت ہے کہ ،
کوئی مشین ہو ،کوئی گھر یا کوئی تعلق ،انکی دیکھ بھال کرنا ہمیشہ کم خرچ ہوتا ہے .با نسبت انکی مرمت کے !
جس چیز کی آپ دیکھ بھال نہیں کرتے .آخر کر آپ اسے کھو دیتے ہیں .
 جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے .ہمارا وطیرہ یہ ہی رہا ہے .ہم نے کسی ادارے ، کسی عمارت ،کسی قاعدے ،کسی قانون کی دیکھ بھال نہیں کی ؟ ہمیں جو کچھ انگریز سے بنا بنایا ملا تھا .ہمارے خود ساختہ لیڈروں نے اسے بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا .اس بربادی کا سہرا کسی ایک شخصیت کے سر نہیں جاتا .یہ اجتماہی خود کشی تھی اور آج تک ہو رہی ہے .اس ظلم میں سیاست دان ،نوکر شاہی ،نواب ، جاگیردار ،پیر ،سرمایادار ،مذہبی موقع پرست اور سب سے بڑھ کر فوج شامل تھی اور آج بھی ہے .
یہ سب کچھ کیا گیا ،قومی سلامتی کے نام پر ؟   ان عقل مندوں کے خیال میں قوم اور قومی سلامتی دو الگ الگ چیزیں ہیں .یہی وجہ ہے کہ آج اٹھتر سالوں بعد بھی قوم ،ظلم و انصافی ،بھوک اور غربت کی چکی میں پس رہی ہے .جبکہ قومی سلامتی کا نعرہ مستانہ لگانے والے ،دولت کے انبار اکھٹے کرتے نہیں تھک رہے اور انکی اولادیں ،یورپ ،امریکہ ،کینیڈا اور آسٹریلیا میں عیاشی کر رہی ہیں .ان جونکوں کے خیال میں قومی سلامتی سے مراد انکی اور انکی آنے والی نسلوں کی سلامتی ہے . جبکہ عوام اسلئیے غریب ہے .(بقول مولوی کے ) کہ یہ خدا کی مرضی ہے .انکا خدا ،چوروں ،ڈاکوؤں ،لٹیروں ،ملاوٹ کرنے والوں ، منشیات فروشوں اور رشوت خوروں کو بے حساب دیتا ہے ؟  کیونکہ (بقول انکے )غریبوں کو ان سے سوال کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں .انھیں تقدیر پر راضی با رضا رہنا چاہیے .
کارل مارکس نے کہا تھا . کہ مذہب غریبوں کیلئے افیون ہے !   اسکی دلیل یہ ہے کہ ہمیشہ طاقتوروں نے 
مذہب کو غریبوں کو قابو کرنے کیلئے ،ایک تسکین آور دوا کے طور پر استعمال کیا ہے .اس  کام کیلئے مذہبی 
رہنما ہراول دستے کی طرح طاقتوروں کی راہ ہموار کرتا ہے اور اپنا حصہ وصول کرتا ہے .اس فرعونی گٹھ جوڑ 
کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو مذہبی نشہ سے سلاۓ رکھا جاۓ .تاکہ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں پر غور و فکر نہ کر سکیں .اور اپنے معاشی ٠ معاشرتی حالات کو بہتر بنانے کیلئے ، اپنے جائز حقوق کیلئے جدوجہد سے باز رہیں . 
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوام اپنی حالت سنوارنے کیلئے اٹھتے ہیں .اشرافیہ کا اسلام خطرے میں آ جاتا ہے .مولوی اشرافیہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے .اشارہ ہوتے ہی مدرسے کے معصوم بچوں کو لیکر سڑک پر نکل آتا ہے اور اپنے اور اشرافیہ کے پیٹ کو لاحق خطرے کے آگے مذہب کا بند باندھنے کا ڈونگ رچاتا ہے .ایک طرف کہتا ہے کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں .اور دوسری طرف ظلم کرنے والوں کا ساتھ دے کر لوگوں کو ظلم کے خلاف اٹھنے سے روکتا ہے .
اسلام دین ہے مذہب نہیں .دین اپنا نفاز چاہتا ہے .الله کی کبریائی دین کے ذریعے ہی قائم ہو سکتی ہے .مولوی کے خود ساختہ مذہب کے ذریعےنہیں .یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے .مذہب کی وجہ سے ہی مسلمان تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں .اشرافیہ (سرمایہ دار ،جاگیردار ،حکمران اور مولوی )یہ سب ایک مافیا ہیں .اسلام ،قومی سلامتی ،پاکستان یہ صرف کھوکھلے نعرے ہیں .جن کو یہ لوگ اپنے اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لئیے استعمال کرتے ہیں . ان سب کے خلاف جدوجہد ہمارا (عوام پاکستان ) کا حق ہے .

Tuesday, 19 August 2025

!کون سی ریاست

مشاہد حسین سید کسی تعارف کے محتاج نہیں .صحافی ،دانشور ، لکھاری،سیاست دان  اور نہ جانے کیا کیا ہیں .
آپ فرماتے ہیں کہ فوج کمزور ہونے سے ریاست تباہ ہو جاتی ہے .جناب نے یہ نہیں بتایا کہ کون سی ریاست ؟ اگر انکی مراد ریاست پاکستان ہے تو عرض ہے کہ اس ریاست کی تباہی تو اسی وقت شروع ہو گئی تھی .جب نوکر شاہی نے ،جاگیرداروں ،نوابوں ،پیروں ،مذہبی موقع پرستوں ،عدلیہ اور فوج کے ساتھ مل کر قائد اعظم کے پاکستان پر قبضہ کر لیا تھا . شروع دن سے انھوں نے پاکستان کو اسی طرح چلایا جس طرح انگریز بہادر چلا رہا تھا .یعنی عوام کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے .جبکہ اشرافیہ کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی حاصل تھی .
آج بھی عوام کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی .اس فرعونی مافیا نے پاکستان کے تمام وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے .انکے لئیے قومی خزانے کا شاہی دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے .جبکہ عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں .
سید صاحب نے گھاٹ گھاٹ  کا پانی پیا ہوا ہے . سچ سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا ،کوا غلیل سے ڈرتا ہے .فوج کمزور ہونے سے کبھی کوئی ریاست تباہ نہیں ہوئی .ریاستیں تب تباہ ہوتی ہیں. جب آئین و قانون کو طاقت وار موم کی  ناک بنا دیتے ہیں .جب ظلم و نا انصافی کا بازار گرم ہوتا ہے .جب کرپٹ ٹولے حکمران بنا دئیے جاتے ہیں .جب لوٹ مار کو ادارے اپنی طاقت سے جائز بنا دیتے ہیں .جب عدالتیں کمزور کو انصاف دینے کی بجاۓ ظالم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتی ہیں . اور جب مشائد حسین جیسے لوگ سچ کیلئے کھڑے ہونے کی بجاۓ .طاقت وار کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں .اس وقت ریاست دم توڑ دیتی ہے .سوویٹ یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے .سید صاحب کو  شائد سوویٹ یونین کا بکھرنا یاد نہ ہو ...

Sunday, 17 August 2025

!سوچیں-غور کریں اور مثبت عمل کریں

زندگی کا المیہ یہ ہے کہ ہم جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں .لیکن ہمیں عقل دیر سے آتی ہے .
اپنی غلطیوں اور نا کامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنا زیادہ آسان ہوتا ہے .
ایمان داری ایک بہت قیمتی تحفہ ہے .کم ظرف اور چھوٹے لوگوں سے  اسکی توقع مت رکھیں .
مشکل یہ ہے کہ لوگ دو نمبر لوگوں کی عزت کرتے ہیں اور صاحب کردار لوگوں سے نفرت .
ایک بیج جو مٹی سے ڈرتا ہو .کبھی بھی درخت نہیں بن سکتا .تن آسانی ترقی کی دشمن ہوتی ہے .
ہمیشہ امید کو خوف پر ترجیح دیں .کیونکہ امید آپکو حوصلہ دیتی ہے .آپکا راستہ روشن کرتی ہے .اور راستے کی رکاوٹوں کو مواقوں میں تبدیل کرتی ہے .
دل کا سکون آپکی پہلی ترجیح ہونا چاہئیے .
کچھ لوگ کبھی بھی آپکی کامیابی پر خوش نہیں ہونگے .کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آپکی کامیابی انکی نا کامی ہے .
مسکراہٹ بجلی کی طرح ہے .اور زندگی ایک بیٹری !جب آپ مسکراتے ہیں تو بیٹری چارج ہوتی ہے .اسطرح ایک خوشگوار دن کی ابتدا ہوتی ہے .اسلئیے مسکراتے رہیں .
ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کی بجاۓ . آگے بڑھنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں .یہی زندگی ہے 
جب آپ اندر سے خوش ہوں تو دنیا کی ہر چیز خوبصورت لگتی ہے .

Thursday, 24 July 2025

بڑی طاقتوں کے مفادات ہوتے ہیں دوستیاں نہیں

بڑی طاقتوں کے مفادات ہوتے ہیں دوستیاں نہیں . یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات بنیادی طور پر ذاتی یا جذباتی بندھنوں کے بجاۓ .بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی حکمت عملی کےمطابق چلتے ہیں .اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستیں اپنے اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں .جو وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں .
ایک برطانوی سیاستدان  لارڈ پا مر سٹن جو دو مرتبہ برطانیہ کے وزیر اعظم بھی رہے .کہا تھا کہ ....ہمارا کوئی ازلی حلیف نہیں اور نہ کوئی ہمارا دائمی دشمن ہے .بلکہ ہمارے مفادات ابدی اور دائمی ہیں .ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اتحاد اکثر عارضی ہوتے ہیں اور دیرپا دوستی کے بجاۓ باہمی فائدے پر مبنی ہوتے ہیں .
پاکستان کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کیا جا سکتا ہے . جہاں پر قابض اشرافیہ نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی ہے .آزادی سے لیکر آج تک کی ہماری تاریخ اس کی گواہ ہے .قائد اعظم کی وفات کے بعد سے مسلط رہنے والے سیاسی اور فوجی ٹولے نے ہمیشہ اپنے مفادات کو قومی مفادات پر مقدم رکھا . عوام کو جھوٹے نعروں اور ترانوں کے پیچھے لگاۓ رکھا .
ایک اور گروہ جس نے اس ملک کی سمت کبھی درست نہیں ہونے دی .وہ ہے مذہبی رہنما ،خود ساختہ مذہب کے ٹھیکے دار . ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اس طبقے نے نہ کبھی اسلام کی کوئی خدمت کی ،نہ کبھی عوام کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی . ہاں انھوں نے اپنے اپنے فرقے کے مفادات کے تحفظ کیلئے خوب لڑائی لڑی . عوام کو انسانی ہمدردی ، حسن سلوک اور برابری کا درس دینے والے .خود اشرافیہ کی برابری کرنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں .اربوں کے گھروں اور کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومنے والے ، عوام کو صبر کی تلقین کرتے نہیں تھکتے .
جبکہ خود  اپنا حصہ بقدر جثہ ، وصول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ....
نہ کوئی ہمارا ..آئرن برادر ہے . (چین ) ....نہ کوئی دینی بھائی (سعودی عرب )....اور نہ کوئی دوست ،بڑا بھائی (امریکہ )....سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں .جن کے تحفظ کیلئے وہ سب کوشاں ہیں .جبکہ ہماری حکمران اشرافیہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کبھی ایک کے ترلے کرتی ہے کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے کے ....اس پنگ پانگ کے کھیل میں انھوں نے عوام کی اکثریت کو ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے .جس سے نکلنا اب نا ممکن ہوتا جا رہا ہے .

Sunday, 22 June 2025

.امریکی صدر نا قابل اعتبار ہیں

امریکی صدر کی پاکستانی آرمی چیف سے حالیہ ملاقات اس  لحاظ سےغیر معمولی تھی کہ اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے کسی پاکستانی آرمی چیف کو وائیٹ ہاؤس میں دعوت نہیں دی تھی . گو اس سے پہلے ایوب خان ،ضیاالحق اور پرویز مشرف نے امریکہ کا دورہ  کیا اور انھیں وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات بھی کروائی گئی .لیکن وہ صدر پاکستان کی حثیت سے دورے پر گۓ تھے -

کہا جاتا ہے کہ امریکی کسی کو کچھ بھی فری نہیں دیتے . اس خاص مہربانی کا بھی کوئی خاص مقصد ضرور ہو گا . کچھ دنوں یا چند ہفتوں میں یہ سامنے آ جاۓ گا کہ امریکی پاکستان سے کیا  چاہتے ہیں .کیا پاکستان سے صرف فضائی اڈے چاہییں یا پاکستان کی سرحد سے ایران میں دہشت گرد داخل کرنے کا کوئی پروگرام ہے ،جیسا کہ لیبیا اور شام میں کیا گیا-

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ دو ہفتوں میں یہ فیصلہ کریں گے کہ ایران کے خلاف کوئی فوجی کروائی کرنی ہے یا نہیں ؟ اگر امریکی صدر ایران کے خلاف کروائی کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر انھیں پاکستان کی مدد درکار ہو گی. کیونکہ اب اسرائیل اور امریکہ کا خیال ہے کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے . تاکے لیبیا،عراق  اور شام کی طرح اپنی مرضی کی کوئی حکومت قائم کی جاۓ .اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو ایران کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد داخل کر کے ملک کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جاۓ .اس طرح گریٹر اسرائیل کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو جاۓ-

ہماری تاریخ ایسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے . جس کا نقصان پوری پاکستانی قوم کو اٹھانا پڑا . کیا ہماری خاکی اشرافیہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پھر امریکی جنگ کا حصہ بنے گی ؟ 

وائیٹ ہاؤس کا یہ کھانا ہمیں بہت  مہنگا پڑ سکتا ہے .کیونکہ اگر ایران میں حکومت تبدیل ہوتی ہے . تو اگلا نشانہ پاکستان ہو گا . اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئیے . اسرایلیوں نے تو پہلے ہی یہ کہنا شروع کر دیا ہے .کہ ایران کے بعد پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمارا اگلا نشانہ ہو گا-

امریکہ نہ پہلے ہمارا دوست تھا نہ اب ہے اور نہ کبھی مستقبل میں ہمارا دوست ہو گا . تاریخ اسکی گواہ ہے . 65 کی پاک ،بھارت جنگ میں امریکہ نےہمیں جنگی سازوسامان کی فراہمی پر پابندی لگا دی .71 میں ہم امریکی ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے کرتے آدھا ملک گنوا بیٹھے .کارگل ہمیں امریکی دباؤ پر خالی کرنا پڑا . بالاکوٹ واقعے میں امریکہ اور یورپ ہم پر دباؤ ڈالتے رہے کہ ہم بھارتی جارحیت کا کوئی جواب نہ دیں. 7 مئی کو بھی امریکہ سمیت کسی مغربی ملک نے بھارت کی مذمت نہیں کی . پاکستان فضایہ کی شاندار حکمت عملی اور جوابی کروائی نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا . تو بھارت کے کہنے پر امریکہ نے جنگ بندی کروا دی . امریکی صدر اب اسکا  کریڈٹ لیتے ہوۓ .نوبل پیس پرائز کا مطالبہ کر رہے ہیں . انہیں غزہ میں جاری اسرائیلی قتل و غارت گری کی کوئی پروہ نہیں . جہاں پر 60 ہزار سے زائد مظلوم اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں زخمی ہیں . اور لاکھوں بھوک سے مر رہے ہیں-

امریکہ نے کبھی بھی اپنے معاہدوں اور وعدوں کا پاس نہیں کیا .تاریخ اسکی گواہ ہے . 1778 اور 1871 کے درمیان امریکہ نے مقامی ریڈ انڈین کے ساتھ کوئی 500، معاہدے کیے . ان میں سے کسی ایک پر بھی انھوں نے مکمل عمل درآمد نہیں کیا .ریڈ انڈین کہتے تھے-

.“White man speaks with a forked tongue”

چیف صاحب آپکو بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے -