Friday, 30 August 2024

!آکسفورڈ یونی ورسٹی کےقابل اور ممتاز ترین سابق طلباء

آکسفورڈ کی نو سو سالہ تاریخ کے سو  قابل اور ممتاز ترین سابق طلبہ کی فہرست جاری . اس فہرست کے مطابق عمران خان چوتھے نمبر پر ہیں .
آکسفورڈ یونی ورسٹی دنیا کے  قدیم ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے .اسکا آغاز 1096, عیسوی میں ہوا .1167,عیسوی میں یہاں پر تعلیمی سرگرمیوں میں تیزی اس وقت آئی .جب کنگ ہینری دوم نے انگلش طالب علموں کے پیرس یونی ورسٹی میں داخلے پر پابندی لگا دی .
29، فروری 2024,، کو آکسفورڈ یونی ورسٹی کی تاریخ کے 100،ممتاز ترین افراد کی ایک فہرست جاری کی گئی .یعنی آکسفورڈ کی 900, سال سے زائد کی تاریخ کے قابل اور ممتاز ترین سابق طلباء . جنھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا .اور کار ہاۓ نمایاں سر انجام دئیے .
اس فہرست میں پاکستان کے چار افراد شامل ہیں .ان میں سے تین تو اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہیں .
باباۓ قوم قائد آ عظم محمد علی جناح .
ذولفقار علی بھٹو .
حسین شہید سروردی . 
اس فہرست میں چوتھا نام ،مرشد عمران خان کا ہے .جو اس 100, افراد کی لسٹ میں بھی چوتھے نمبر پر ہیں .
اس فہرست کے مطابق قائد اعظم9, نمبر پر ہیں .
ذولفقار علی بھٹو 28,نمبر پر اور 
حسین شہید سروردی  99, نمبر پر ہیں .
ہمارے لئیے یہ خوشی اور فخر کا مقام ہے کہ پاکستان سے چار محترم شخصیات آکسفورڈ کی اس فہرست میں شامل ہیں . 
1992،کے کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان ، پاکستان تحریک انصاف کے بانی ،شوکت خانم کینسر ہسپتالوں کی بنیاد رکھنے والے اور دو بین الاقوامی معیار کی یونی ورسٹیاں بنانے والے ،پاکستان اور پاکستانیوں کے ہمدرد اور خیر خواہ ،اقوام متحدہ میں اسلام کا مقدمہ لڑنے والے ، کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے والے ، عمران خان آکسفورڈ کے 100,قابل اور ممتاز ترین افراد کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں .
بقول عمران خان ، الله الحق ہے .سچ کا خدا ہے . یقینا الله بہترین تدبیر کرنے والا ہے .
نوٹ .
دنیا کی سب سے پرانی یونی ورسٹی ،بولانگا یونی ورسٹی کو مانا جاتا ہے .جو اٹلی کے شہر بولانگا میں  1088،عیسوی میں قائم ہوئی .
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سب سے پرانی یونی ورسٹی ، مراکش کے شہر ،فض میں 859،عیسوی میں قائم کی گئی .اس وقت سے لیکر آج تک اس درس گاہ میں درس و تدریس کا عمل جاری ہے .لیکن مغربی تعصب یہ حقیقت ماننے کو تیار نہیں .

Tuesday, 20 August 2024

Whom the gods wish to destroy!

The quote "Whom the gods wish to destroy, they first make mad" implies that before a person or society comes to ruin, they may be led to irrational behavior or poor decision-making. Applying this idea to Pakistan’s current situation requires examining various social, political, and economic factors.

Political Shakiness: Pakistan has encountered critical political unrest, remembering changes in government, charges of debasement, and political infighting. This shakiness can prompt unfortunate administration and an absence of rational strategy-making, causing residents and lawmakers to act nonsensically or with childishness. The 'franticness' here should be visible in the political methodology decisions that compound divisions instead of advancing solidarity.

Financial Difficulties: Pakistan faces serious monetary hardships, including high expansion, obligation, and joblessness. Amid financial pressure, people might fall back on frantic measures, like fights or viciousness. The aggregate disappointment can establish a tumultuous climate, leading to an impression of franticness inside society as individuals respond to their critical conditions.

Social Agitation: The ascent of fanaticism and partisan viciousness in pieces of Pakistan can be seen from this perspective. In the event that a general public encounters significant disillusionment and vulnerability, it might prompt radicalization and vicious way of behaving, which can additionally weaken the locale and dissolve a social union. The 'frenzy' could address the social breakdown in light of seen existential dangers.

Unfamiliar Relations: Pakistan's associations with adjoining nations, particularly India and Afghanistan, frequently impact its interior elements. Errors or forceful positions in international strategy can prompt expanded pressures that make a pattern of dread and counter, further convoluting the administration and social strength.

In synopsis, the statement can be applied to Pakistan's circumstances by looking at how different types of frenzy—political, monetary, and social—can prompt and reflect further emergencies. At the point when frameworks separate, judicious ideas are often the main setback, prompting choices that further fuel the front-and-center concerns. Understanding these elements is vital for resolving the hidden issues and pursuing a more steady and prosperous future for the country.

Sunday, 21 April 2024

امریکہ دوست یا دشمن

سابق امریکی سیکٹری اف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ، امریکہ سے دشمنی آپکے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے .جبکہ امریکہ سے دوستی آپکے   لئیے مہلک !
ایسا ہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے .کہنے کو تو ہم امریکہ کے دوست ہیں .لیکن امریکہ سے دوستی ہمارے لیے ہمیشہ سے مہلک ثابت ہوئی ہے .جب جب امریکہ کو ہماری ضرورت پڑی ہم نے اپنے ملک کے مفادات کو بلاۓ طاق رکھتے ہوۓ امریکہ کا ساتھ دیا .لیکن امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفادات کا تحفظ مقدم رکھا . 
1965،کی جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کو دفاعی سازوسامان کی فروخت پر پابندی لگا دی. 1978،میں فرانس نے امریکی دباؤ پر پاکستان کو نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ دینے سے انکار کیا .لیکن جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تو ہم ہنسی خوشی پھر امریکہ کے ساتھ مل گۓ .جو کچھ امریکہ کے ساتھ ویٹ نام میں ہوا تھا .اس کا بدلہ روس سے  افغانستان میں لینے کا وقت آ چکا تھا . 
افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے کی جو قیمت پاکستان کو چکانی پڑی .اس سے پاکستان کی اکثریت واقف ہے .اس جنگ کے اثرات سے پاکستان ابھی تک پوری طرح باہر نہیں نکل سکا .جب تک افغانستان میں جنگ جاری رہی . امریکہ نے ہمارے نیوکلیئر پروگرام سے آنکھیں بند کیے رکھیں . جونہی روس افغانستان سے واپس ہوا .امریکہ نے بھی ہم سے آنکھیں موڑ لیں 
1989,میں پاکستان نے 1.4,بلین ڈالر مالیت سے (60), F.16خریدنے کا معا ئدہ کیا .پاکستان نے 685, ملین ڈالر کی رقم بھی جمع کروا دی .لیکن امریکہ نے ایک بار پھر پاکستان کو ان جہازوں کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی .پاکستان کے بار بار اسرار کرنے پر کہ یا تو پیسے واپس کیے جائیں یا جہاز دئیے   جائیں .1998, میں امریکہ کی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کو 326, ملین ڈالر واپس کیے جائیں گے اور 60, ملین ڈالر کی گندم دی جاۓ گی .
1998,میں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ کو کوئی پریشانی نہ ہوئی .لیکن پاکستان کے جوابی دھماکے کرنے پر پاکستان پر پابندیاں لگا دی گئیں .امریکہ کا پاکستان کے بارے میں ہمیشہ سے دوہرا معیار رہا ہے . 9/11,کے بعد جب پھر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑی .ہم بلا سوچے سمجھے طالبان کے خلاف جنگ میں کود پڑے .دنیا میں شائد ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے امریکہ کیلئے اتنی قربانیاں دی ہوں جتنی پاکستان نے دی ہیں .اور بدلے میں جتنی  رسوائیاں ، بدنامی ، طعنے اور نقصانات ہم نے اٹھاۓ ہیں .اسکی مثال بھی  ملنی مشکل ہے .
ہم ایران سے گیس نہیں خرید سکتے کیوں کہ امریکہ بہادر ایسا نہیں چاہتا .ہم روس سے تیل اور گیس نہیں خرید سکتے .کیونکہ امریکہ ناراض نہ ہو جاۓ .ہم چین کو ناراض کر رہے ہیں .صرف امریکہ کی خوشنودی کیلئے. پاکستان کے مفادات کا تحفظ کس نے کرنا ہے ؟
پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے پاکستان کے مقتدر حلقے الٹے لیٹ چکے ہیں .روس کے خلاف جنگ میں ہم یوکرین کو اسلحہ فروخت کر رہے ہیں .سفارتی محاذ پر ہم روس کے خلاف امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے ساتھ ہیں .غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر ہماری زبانیں خاموش ہیں .یہاں تک کہ پاکستان میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں کوئی ریلی نہیں نکالی جا سکتی .فلسطین کا جھنڈا لہرانا .قابل دست اندازی پولیس ہے .اس تابعداری کا صلہ امریکہ بہادر نے ہمیں کیا دیا ہے ؟
ایرانی صدر کے دورہ پاکستان سے صرف دو دن پہلے ،امریکہ نے تین چینی کمپنیوں اور ایک بلاروس کی کمپنی پر پابندیاں عائد کر دی ہیں .جن کے بارے میں انکا خیال ہے کہ وہ پاکستان کے  میزائل پروگرام میں مدد فراہم کر رہی تھیں .حقیقت میں تو یہ پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں ہیں .اور ساتھ ہی امریکہ یہ بھی دھمکی دے رہا ہے کہ اگر پاکستان ،ایران سے گیس لے گا تو اسکے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں .
یہ ان تمام  وفاداریوں کا صلہ ہے جو ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرتے ہوۓ کیے .کیا ہمارے حکمران تاریخ سے کچھ سبق سیکھیں گے ؟
.“Those that fail to learn from history are doomed to repeat it”
.Winston Churchill

Wednesday, 27 March 2024

سحر قریب ہے

قانون قدرت ہے کہ ہر زی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے .جس طرح ہر فرد پر یہ قانون نافذ ہوتا ہے اسی طرح قوموں پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے .ہر انسان کو قدرت زندگی میں ایک یا ایک سے زیادہ مواقع دیتی ہے کہ اگر وہ غلط سمت جا رہا ہے تو صراط مستقیم پر واپس آ جاۓ . اسی طرح قدرت اقوام کو بھی مواقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنی سمت درست کر لیں .
فرد کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی نے ایک دن ختم ہونا ہے .چاہے وہ سو سال جیے !  لیکن کیونکہ قومیں افراد سے مل کر بنتی ہیں اسلئے انکے پاس اپنی اصلاح کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں .لیکن یہ مواقع لا محدود نہیں ہوتے .قوموں کی بھی ایک مقررہ عمر ہوتی ہے .قدرت کے بار بار فراہم کردہ مواقع سے اگر کوئی قوم فائدہ نہیں اٹھاتی .تو اسے بھی تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا !
ہمارے ساتھ بھی اس وقت اسی قسم کا معاملہ چل رہا ہے .قانون قدرت نے ہمیں بھی بہت سے مواقع دئیے ہیں .ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے لیے آخری موقع ہے .مثبت بات یہ ہے کہ پاکستانی قوم نے اپنی سمت درست کر لی ہے .تمام تر پراپیگنڈے ،ظلم و   جبر، قید و بند کی صوبتوں اور مشکلات کے با وجود لوگوں نے آزادی و خود مختاری کے حق میں ووٹ دیکر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم ایک قوم ہیں .اور ہمارے حق سے کوئی بھی طاقت محروم نہیں کر سکتی !
اب یہ ان تمام ،مقتدر حلقوں ، اداروں اور طاقتوں کا امتحان ہے کہ کیا وہ بھی اپنی اصلاح چاہتے ہیں ؟ یا اسی پرانی روش پر چلنا چاہتے ہیں جس نے پاکستان کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے .جہاں پر ہمیں تباہی کے سوا آگے کچھ نظر نہیں آ رہا !
طاقت کے نشے میں پاگل اب مزید عوام کی امنگوں کے سامنے بند نہیں باندھ سکتے .اس بوسیدہ نظام نے اب گرنا ہی ہے .اس تاریکی نے اب ختم ضرور ہونا ہے .
سحر قریب ہے !!!!

Saturday, 23 March 2024

فرعون ،ہامان اور قارون

فرعون ،ہامان اور قارون ....صرف ماضی کا قصہ نہیں بلکہ یہ تینوں ، تین مختلف طبقوں کی نمائندگی کرتے ہیں. یہ تین طبقے ہر دور میں موجود رہے ہیں .
فرعون . حکمران طبقے کی نمائندگی کرتا ہے .
ہامان . مذہبی پیشوائیت اور 
قارون . سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتا ہے .
ہر دور میں ان تین طبقوں یا گروہوں نے(الله )کے رسولوں ، پغمبروں ، نبیوں کے خلاف گھٹہ جوڑ کیا اور الله کے نظام کے نفاز میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے .اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تین کردار صرف  حضرت موسیٰ علیہ سلام کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں .اور اب صرف ماضی کا قصہ ہیں .تو ہم غلط سوچ رہے ہیں .جس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے .اسی طرح تاریخی کردار بھی ہر زمانے میں نۓ ناموں اور القاب سے موجود رہے ہیں .
یہ تین شیطانی پھندے ہیں .جو  ہر دور میں موجود تھے ،اب بھی ہیں اور آنے والے زمانے میں بھی موجود ہونگے .انکی شکلیں ،لباس ،زبانیں اور رنگت بدلتی رہتی ہے .لیکن انکا طریقہ واردات وہی رہتا ہے .عوام کو تقسیم کرو اور حکومت کرو .
قرآن کریم انسانیت کا آئین ہے .یہ ایک ایسا آئین ہے جو ہر زمانے میں قابل عمل ہے .الله کریم نے اس کتاب ہدایت میں جو تاریخی حقائق بیان کیے ہیں .ان کا مقصد صرف اس زمانے کے حالات و واقعات بیان کرنا نہیں تھا .کہ اس زمانے میں جب لوگوں نے الله کے قانون کی خلاف ورزی کی تو انکا کیا انجام ہوا .بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب بھی الله کے قانون کی خلاف ورزی ہو گی .نتیجہ ایک ہی نکلے گا .تباہی اور بربادی !
کیونکہ الله کا قانون کبھی بھی نہیں بدلتا لہذا  جیسا عمل ہو گا ویسا ہی اسکا نتیجہ .
ایک اور بات جو ہمیں ذہین نشین کر لینی چاہئیے کہ  کوئی بھی شخص یا قوم الله کی پسندیدہ نہیں . جو بھی شخص یا قوم الله کے قانون پر عمل کرتی ہے .وہ الله کی پناہ میں آ جاتی ہے اور  اسکے حضور معتبر قرار پاتی ہے .اور یہ مقام اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک وہ الله کے قانون پر عمل پیرا رہتی ہے .جیسے ہی الله کے قانون کی رسی ہاتھ سے چھوٹتی ہے .مقام و مرتبہ بھی ڈگمگانے لگتا ہے .تاریخ اسکی گواہ ہے !!!!
قرآن کریم کی  (68) آیات میں ، (74)مرتبہ  فرعون کا  ذکر آیا ہے .
سورہ البقرہ کی آیت 49,میں ہے کہ 
ا ور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی و ہ تمہیں بری طرح عذاب دیا کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی. ترجمہ .احمد علی 
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے تمہیں قومِ فرعون سے نجات بخشی جو تمہیں انتہائی سخت عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے، اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (کڑی) آزمائش تھی،ترجمہ طاہرالقادری .
ا ور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام).ترجمہ .احمد رضا خان .
ان تینوں حضرات کا ترجمہ تقریبآ ایک جیسا ہے .تینوں لکھتے ہیں کہ وہ تمھارے بیٹوں کو ذبح کرتے   اور  تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے تھے .
غور کریں .اگر وہ تمام بیٹوں کو ذبح (قتل )کر دیتے تھے .تو اسکا انھیں کیا فائدہ تھا .انھوں نے تو بنی اسرائیل کو غلام بنایا ہوا تھا .ان سے کام کرواۓ جاتے تھے .اگر کوئی مرد ہی باقی نہ رہے تو مشقت کس سے کروائی جاتی تھی .
اصل بات یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو راستے سے ہٹاتے تھے ،قید میں ڈالتے اور قتل کرتے تھے .جو انکا راستہ روکنے کی صلاحیت رکھتے تھے .جو اپنی قوم کی قیادت کر سکتے تھے . جو مضبوط کردار کے مالک ہوتے تھے .جو نا انصافی اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات رکھتے تھے ،اور ان لوگوں کو آگے لاتے تھے جو انکے کٹھ پتلی بن کر انکا ساتھ دے سکیں .یعنی کمزور کردار کے مالک ،بزدل اور  اخلاقی ،مالی طور پر بے ایمان !
اگر ہم صرف برصغیر (ہندوستان )کی تاریخ کا جائزہ لیں تو بات بہت آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے .جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو کن لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا اور کن کو اپنے راستے سے ہٹایا ؟؟؟؟
نواب سراج الدولہ ،ٹیپو سلطان ،مرہٹے ،سکھ اور بہت سے دوسرے .  بہادر شاہ ظفر ،جس کی حاکمیت لال قلعہ کی دیواروں تک محدود ہو چکی تھی .اسکو  بھی نہ بخشا گیا . جس جس کو بھی انگریز نے اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھا .اسے راستے سے ہٹا دیا .  اور ان لوگوں کو اوپر لیکر اۓ .جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے انگریز کا ساتھ دینے پر تیار تھے .میر جعفروں اور میر صادقوں کی ایک پوری فوج تیار کی .جس کی مدد سے وہ دو سو سال تک یہاں پر قابض رہے .
پاکستانی قوم کا سفرمعکوس اسلئے جاری ہے کہ اس ملک میں ابھی تک ان لوگوں کی اولاد اقتدار پر قابض ہے جن کے آباواجداد نے انگریز کی وفاداری اور اپنے لوگوں سے غداری کے عوض ،عہدے اور زمینے حاصل کیں .
جیسے میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ  فرعون ہر دور میں موجود رہے ہیں . اور ہر زمانے میں وہ وہی کچھ کرتے رہے ہیں .جس کو الله کریم نے قرآن میں بیان کیا ہے . یعنی کمزوروں ،بزدلوں ،مفاد پرستوں اور اپنی قوم سے غداری کرنے والوں کو اپنے ساتھ ملا کر اپنے اقتدار کو طول دیتے رہے ہیں . ان لوگوں کو پا بند سلاسل اور قتل کرتے رہے ہیں جو انکے سامنے کھڑے ہونے کی جرات کرتے رہے ہیں .
جو کچھ آزادی سے لیکر آج تک  پاکستان ہوا اور ابھی بھی ہو رہا ہے   .اس پر غور کریں .کن لوگوں کو مقتدر حلقوں اداروں (اندرونی و بیرونی )نے راستے سے ہٹایا اور کن لوگوں کو آگے لاۓ .بات آپکی سمجھ میں آ جاۓ گی .

فرعون کو ماضی کا قصہ نہ سمجھیں .وہ سوچ آج بھی جاری و ساری ہے .اور طریقہ کار بھی وہی ہے .
عمران خان کو راستے سے ہٹا کر ، شہباز شریف ،زرداری اور بلاول کو اقتدار میں لانا . 
یہ وہی طریقہ کار ہے جو فرعون ہر دور میں کرتے رہے ہیں !!!!!

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کامیاب وہی ہوتے ہیں جنکا ایمان الله رب العزت کی ذات پر پختہ ہوتا ہے اور جو ثابت قدم رہتے ہیں !!
 

Monday, 26 February 2024

!کاغذ کا ٹکڑا

ہماری تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں کبھی بھی آئین پر عمل نہیں کیا گیا .انگریز کا بنایا  ہوا قانون ہو یا 56, کا آئین ،یا 62, کا آئین یا پھر 1973, کا آئین .اگر آزادی کے بعد بنائے گے آئین کا جائزہ لیں .تو آپ کو یہ جان کر حیرت اور مایوسی ہو گی کہ جنھوں نے یہ آئین بناۓ .انھوں نے ہی ان کو اپنے پاؤں تلے روندا .
56, کے آئین کو ایوب خان نے اپنے آئین سے بدل دیا .62, کا آئین جو ایوب خان نے خود بنایا تھا .جب وقت آیا تو انھوں نے خود اس آئین پر عمل نہیں کیا .62, کے آئین کے تحت اگر صدر کی وفات ہو جاۓ یا بیماری کی صورت میں  وہ اپنے فرائض سر انجام نہ دے سکے تو قومی اسمبلی کے سپیکر نے قائم مقام صدر بننا تھا .لیکن جب ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو انھوں نے اپنے بناۓ ہوۓ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ اقتدار ایک اور فوجی جرنیل ، یحییٰ خان کے حوالے کر دیا .
70, میں انتخابات ہوۓ .ان انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو آئین کی ایک بار پھر خلاف ورزی کرتے ہوۓ .حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی گئی .ملک دو لخت ہو گیا . لیکن فوجی اور نوکر شاہی ٹولہ پھر بھی اقتدار سے چمٹے رہنے پر بضد تھا .بصد مجبوری انھوں نے اقتدار مغربی پاکستان میں بھٹو کے حوالے کیا .بھٹو مرحوم پاکستان کے پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ،صدر اور پھر 73,،کے آئین کے تحت وزیر اعظم بنے .یہ دنیا کی تاریخ کی ایک انوکھی مثال تھی اور ابتک ہے .
جس آئین کا کریڈٹ بھٹو صاحب لیتے تھے اور آج تک انکی جماعت لیتی آ رہی ہے . بھٹو صاحب نے اس آئین پر خود بھی عمل نہیں کیا .بلوچستان اور سرحد میں منتخب حکومتوں کو بلاوجہ ختم کیا گیا .یہ اس آئین کی صریحاً  خلاف ورزی تھی .جو خود بھٹو کا بنایا ہوا  تھا .73, کے آئین میں جو شخصی آزادیاں دی گئی تھیں .بھٹو مرحوم نے انھیں اپنے پاؤں تلے روندنے میں کبھی کوئی ہچکچاٹ محسوس نہیں کی .
77,  کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف اپوزیشن نے ایک تحریک شروع کی .دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان قومی اتحاد کی ایک سیاسی تحریک جس کا مطالبہ یہ تھا کہ قومی اسمبلی کی تیس نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرایا جاۓ .نظام مصطفیٰ کی تحریک میں بدل گئی .اس تبدیلی کے پیچھے کون بھائی لوگ تھے .ملک کی موجودہ صورت حال دیکھ کر آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ....
ضیاالحق نے اس افرا تفری کے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ .ملک میں مارشل لاء لگا دیا .یہ صریحاً آئین کی خلاف ورزی تھی .لیکن جناب نے نادر شاہی بیان جاری کرتے ہوۓ یہ فرمایا کہ آئین کاغذ ایک ٹکڑا ہے .ضیاالحق اپنے پورے دور حکومت میں مسلسل آئین کی خلاف ورزیاں کرتے رہے .آخرکار کسی اور نے بھی اسی طرح  آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ .انھیں بہت سے دوسرے  لوگوں کے ساتھ اگلے جہان روانہ کر دیا .....
88,،کے بعد کی ہماری تاریخ بھی آئینی خلاف ورزیوں سے بھری پڑی ہے .لیکن اس وقت پاکستان میں آئین کی جو مٹی پلید ہو رہی ہے .اسکی مثال ملنی مشکل ہے .73,، کے آئین کے تحت اگر مرکز یا صوبوں میں کسی بھی وجہ سے مرکزی حکومت یا صوبائی حکومت توڑ دی جاۓ .تو 90, دن کے  اندر  انتخابات ہوں گے . پنجاب اور خیبر پختون خوا میں وزرا  آ علی نے اپنی اپنی حکومتیں توڑیں .آئین کے تحت الیکشن 90, دن میں ہونے چاہئیے تھے .لیکن بھائی لوگوں نے نہیں کراۓ .اس میں ،نوری ،ناری ،خاکی ، بادشاہ ،وزیر اور پیادے سب شامل تھے .
آئین میں ہے کہ نگران حکومتیں صرف روز مرہ معاملات چلائیں گی .وہ طویل المیعاد منصوبے نہیں بنا سکتیں .نہ نگران وزیر اعظم اور نہ نگران وزیرا  علی ،قومی اور صوبائی خزانوں سے کسی منصوبے کیلئے فنڈ جاری کر سکتے ہیں .سواۓ الیکشن کے .لیکن یہاں وزیر اعظم صاحب دنیا کی سیر کرتے رہے .اور صوبائی نگران سرکاری  زمین    اور صوبائی انتظامیہ کو اربوں روپے کی گاڑیاں بانٹتے رہے .
اب انتخابات کے بعد بھی آئین شکنی جاری ہے .جن کا کام صاف و شفاف انتخابات کرانا تھا .وہ دھاندلی پے دھاندلی کیے جا رہے ہیں .پنجاب کا ایوان ابھی مکمل نہیں لیکن وزیر  ا علی منتخب کرایا جا رہا ہے .اسی طرح مرکز میں بھی ایوان مکمل نہیں لیکن اجلاس بلانے کی جلدی ہے .
عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کو دبانے کیلئے  ہر غیر قانونی اور غیر آئینی طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے .یہ پاگل پن کی انتہا ہے .اگر مقتدر حلقوں کے نزدیک آئین محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے .تو یہ سوچ لیں .اسی کاغذ کے ٹکڑے سے آپکو  تمام مراعات اور اختیار بھی حاصل ہے .ڈریں اس وقت سے جب عوام نے بھی اسے ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ لیا .تو آپکے پاس سر چھپانے کی جگہ بھی نہیں رہے گی .اگر آپ عوام سے انکا آئینی حق چھین سکتے ہیں .تو عوام بھی آپ سے وہ سب کچھ چھین سکتی ہے .جس پر آپ ناجائز قبضہ کیے بیٹھے ہیں .

Friday, 23 February 2024

!اجازت نہیں دی جاۓ گی

 ہم  بچپن سے یہ سنتے آ رہے ہیں ... کہ ملک کی سلامتی سے کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی .
ملک میں فرقہ واریت پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی .
ملک کے اندرونی معاملات میں کسی بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جاۓ گی .
ملک میں کسی کو دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جاۓ گی .
امن و امان تباہ کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹا جاۓ گا .
مذہب کے نام پر سیاست کی اجازت نہیں دی جاۓ گی .
عوام کے بنیادی حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی .
ملکی وسائل کی لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جاۓ گی .
نعروں کی حد تک تو یہ سب ٹھیک ہے .لیکن اصل صورت حال اسکے بلکل بر عکس ہے .جہاں تک ملکی سلامتی کا تعلق ہے اس سے کھیلنے کی اجازت صرف   ان کو ہے جن کے پاس ڈنڈا ہے .امریکہ ،برطانیہ ، مغربی یورپ ، سعودی عرب ، قطر ،متحدہ عرب امارات کو   اجازت ہے کہ وہ  جس وقت چاہیں پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں .دھمکیاں لگا سکتے ہیں .بلکہ اپنی مرضی کی حکومت بھی بنوا سکتے ہیں .انھیں صرف (نوٹ )شو کرنے کی دیر ہے .ڈنڈا بردار اور سوٹ والے گھنگرو توڑ ڈانس کیلیے ہمہ وقت تیار ہیں .
دہشت گرد وں کو کیونکہ کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں .اسلیے جب وہ اجازت ہی نہیں لیتے تو انکو اجازت کیسے دی جا سکتی ہے .جہاں تک آہنی ہاتھوں کا تعلق ہے .تو کیونکہ ہاتھ تو گوشت پوست کے ہوتے ہیں .جب ہاتھ ہی آہنی نہیں تو پھر آہنی ہاتھوں سے کیسے نبٹا جا سکتا ہے .
جب یہ ملک ہی مذہب کے نام پر بنا ہے تو ہم (ڈنڈا بردار )کسی اور کو مذہب کے نام پر سیاست کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں .
اردو کا ایک محاورہ ہے کہ(جس کی لاٹھی اسکی بھینس ).اب چونکہ لاٹھی ہمارے پاس ہے اور عوام نہتے ........اسلیے عوام کے حقوق  کا سوال کہاں سے پیدا ہو گیا ؟؟؟؟؟
ملکی وسائل کا جہاں تک تعلق ہے .اس کیلئے اردو کا اوپر بیان کردہ محاورہ ذہن نشین کر لیں .آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اردو کا مطلب ہی لشکر ہے .آج کل کے زمانے میں لشکر کو (فوج )کہتے ہیں .
کشکول کو کر بلند اتنا کہ امریکہ تجھ سے خود پوچھے 
پتر وزیر اعظم بنڑسیں ....   .یا .....صدر  پاکستان