Sunday, 22 June 2025

.امریکی صدر نا قابل اعتبار ہیں

امریکی صدر کی پاکستانی آرمی چیف سے حالیہ ملاقات اس  لحاظ سےغیر معمولی تھی کہ اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے کسی پاکستانی آرمی چیف کو وائیٹ ہاؤس میں دعوت نہیں دی تھی . گو اس سے پہلے ایوب خان ،ضیاالحق اور پرویز مشرف نے امریکہ کا دورہ  کیا اور انھیں وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات بھی کروائی گئی .لیکن وہ صدر پاکستان کی حثیت سے دورے پر گۓ تھے -

کہا جاتا ہے کہ امریکی کسی کو کچھ بھی فری نہیں دیتے . اس خاص مہربانی کا بھی کوئی خاص مقصد ضرور ہو گا . کچھ دنوں یا چند ہفتوں میں یہ سامنے آ جاۓ گا کہ امریکی پاکستان سے کیا  چاہتے ہیں .کیا پاکستان سے صرف فضائی اڈے چاہییں یا پاکستان کی سرحد سے ایران میں دہشت گرد داخل کرنے کا کوئی پروگرام ہے ،جیسا کہ لیبیا اور شام میں کیا گیا-

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ دو ہفتوں میں یہ فیصلہ کریں گے کہ ایران کے خلاف کوئی فوجی کروائی کرنی ہے یا نہیں ؟ اگر امریکی صدر ایران کے خلاف کروائی کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر انھیں پاکستان کی مدد درکار ہو گی. کیونکہ اب اسرائیل اور امریکہ کا خیال ہے کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے . تاکے لیبیا،عراق  اور شام کی طرح اپنی مرضی کی کوئی حکومت قائم کی جاۓ .اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو ایران کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد داخل کر کے ملک کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جاۓ .اس طرح گریٹر اسرائیل کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو جاۓ-

ہماری تاریخ ایسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے . جس کا نقصان پوری پاکستانی قوم کو اٹھانا پڑا . کیا ہماری خاکی اشرافیہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پھر امریکی جنگ کا حصہ بنے گی ؟ 

وائیٹ ہاؤس کا یہ کھانا ہمیں بہت  مہنگا پڑ سکتا ہے .کیونکہ اگر ایران میں حکومت تبدیل ہوتی ہے . تو اگلا نشانہ پاکستان ہو گا . اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئیے . اسرایلیوں نے تو پہلے ہی یہ کہنا شروع کر دیا ہے .کہ ایران کے بعد پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمارا اگلا نشانہ ہو گا-

امریکہ نہ پہلے ہمارا دوست تھا نہ اب ہے اور نہ کبھی مستقبل میں ہمارا دوست ہو گا . تاریخ اسکی گواہ ہے . 65 کی پاک ،بھارت جنگ میں امریکہ نےہمیں جنگی سازوسامان کی فراہمی پر پابندی لگا دی .71 میں ہم امریکی ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے کرتے آدھا ملک گنوا بیٹھے .کارگل ہمیں امریکی دباؤ پر خالی کرنا پڑا . بالاکوٹ واقعے میں امریکہ اور یورپ ہم پر دباؤ ڈالتے رہے کہ ہم بھارتی جارحیت کا کوئی جواب نہ دیں. 7 مئی کو بھی امریکہ سمیت کسی مغربی ملک نے بھارت کی مذمت نہیں کی . پاکستان فضایہ کی شاندار حکمت عملی اور جوابی کروائی نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا . تو بھارت کے کہنے پر امریکہ نے جنگ بندی کروا دی . امریکی صدر اب اسکا  کریڈٹ لیتے ہوۓ .نوبل پیس پرائز کا مطالبہ کر رہے ہیں . انہیں غزہ میں جاری اسرائیلی قتل و غارت گری کی کوئی پروہ نہیں . جہاں پر 60 ہزار سے زائد مظلوم اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں زخمی ہیں . اور لاکھوں بھوک سے مر رہے ہیں-

امریکہ نے کبھی بھی اپنے معاہدوں اور وعدوں کا پاس نہیں کیا .تاریخ اسکی گواہ ہے . 1778 اور 1871 کے درمیان امریکہ نے مقامی ریڈ انڈین کے ساتھ کوئی 500، معاہدے کیے . ان میں سے کسی ایک پر بھی انھوں نے مکمل عمل درآمد نہیں کیا .ریڈ انڈین کہتے تھے-

.“White man speaks with a forked tongue”

چیف صاحب آپکو بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے -     

Friday, 20 June 2025

!تاریخ کے اوراق سے

یروشلم جسے مسلم بیت المقدس کہتے ہیں .حضرت عمر فاروق کے زمانے میں637,عیسوی میں فتح ہوا .جب حضرت عمر شہر میں داخل ہوۓ .تو انھوں نے ہیکل کے بڑے پادری سے یہودیوں کے بارے میں پوچھا . پادری نے جواب دیا کہ شہر کے اندر کوئی یہودی موجود نہیں .رومن گورنر نے تمام یہودیوں کو شہر بدر کر دیا تھا . حضرت عمر نے اپنے لشکر سے کسی کو شہر سے باہر بیھجا کے وہ یہودیوں کو لیکر آے. اس  طرح حضرت عمر نے شہر کے اندر 80 یہودی خاندان  آباد کئیے- 637,عیسوی سے لیکر 1948, تک یہودی کبھی بھی فلسطین میں اکثریت میں نہیں رہے-

پہلی جنگ عظیم کے دوران  برطانوی حکومت نے جرمنی کے خلاف یہودی حمایت اور مالی امداد حاصل کرنے کیلئے .یوروپ کے یہودیوں سے یہ وعدہ کیا کہ وہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کیلئے انکی مدد کریں گے.

 برطانوی حکومت کے ایک نمائندے لارڈ بیلفور نے1917,میں  ایک ممتاز یہودی بینکر کو ایک خط لکھا جس میں یہ کہا گیا کہ برطانیہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کیلئے ہر ممکن مدد کرے گا .اگرچہ اس وقت فلسطین سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا .اور برطانیہ کا اس علاقے پر کوئی کنٹرول نہ تھا.

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1922, اور 1935, کے درمیان برطانیہ نے یوروپی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کروانے میں پوری مدد فراہم کی برطانیہ نے یہودیوں کو اسلحہ ،ٹریننگ اور مالی امداد دی.

جب اسرائیل کے قیام کا اعلان 1948, میں ہوا تو اسکے ساتھ ہی فلسطینیوں کی بے داخلی کا بھی  آغازہو گیا . اس دوران ساڑے سات لاکھ سے زائد مقامی فلسطینیوں کو بے دخل کیا گیا .انکے گھروں کو مسمار کیا گیا .قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا . آج جو فلسطینی غزہ اور اردن میں آباد ہیں .یہ ان ہی لوگوں کی اولاد ہیں .جنھیں 1948, میں انکے گھروں سے زبردستی نکالا گیا تھا.

عرب -اسرائیل جنگ کے دوران جو1967,میں ہوئی –  اسرائیل نے شام ،اردن اور مصر پر بیک وقت حملہ کیا اور 6, دنوں کی جنگ کے بعد تینوں ملکوں کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا .اسی جنگ کے دوران اسرائیل نے بیت المقدس جو اس وقت اردن کا حصہ تھا . پر بھی قبضہ کر لیا .جو آج تک برقرار ہے.

عرب اسرائیل جنگ-جو کے1973,میں  شام ،مصر اور اسرائیل کے درمیان ہوئی .مصریوں نے صحرا سینا  کا کچھ حصہ دوبارہ حاصل کر لیا . جنگ کے بعد امریکہ نے مصر اور اسرائیل کے درمیان دوستی کا معائدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا . مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض ،صحرا سینا کا سارا علاقہ واپس لے لیا .

فلسطین کا مسلہ صرف فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان نہیں ہے . یہ عربوں -اسرئیلیوں – یورپ اور امریکہ کے درمیان ہے .جب تک امریکہ نہیں چاہے گا .یہ مسلہ حل نہیں ہو سکتا . سابق امریکی صدر جو بائیدن نے 1986, میں ایک تقریر کرتے ہوۓ کہا تھا .کہ اگر مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نہ ہوتا .تو ہمیں ایک اسرائیل خود ایجاد کرنا پڑتا.

کیا عرب خود یہ مسلہ حل کر سکتے ہیں ؟ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے .اسکا جواب ہے کہ وہ کر سکتے ہیں .اگر عرب متحد ہو کر آواز بلند کریں . فوجی اور اقتصادی لحاظ سے عرب ایک اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے .اسکی بنیادی وجہ ہے .ان ممالک میں غیر نمائندہ حکومتیں .پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس نے کچھ ایسے ملک اس خطے میں قائم کیے .جن کا اس سے پہلے کوئی وجود نہ تھا .اور ان ممالک میں اپنے ایجنٹ حکمران مسلط کیے آج بھی انکی اولادیں ان ممالک میں بر سر اقتدار ہیں .یہ حکمران اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے سر گرم عمل رہتے ہیں . انکا مقصد حیات صرف اپنے اقتدار کا تحفظ ہے .پہلے یہ برطانیہ کے غلام تھے .آج یہ امریکہ کے غلام ہیں.

لبنان نام کا کوئی ملک نہیں تھا .یہ ملک فرانس نے پہلی جنگ عظیم کے شام سے الگ کر کے قائم کیا .اسی طرح اردن نام کا کوئی ملک نہیں تھا .اور نہ عراق نام  کا کوئی ملک تھا اورنہ  سعودی عرب نام کا کوئی ملک تھا .یہ ممالک برطانیہ نے اپنے ان وفاداروں کو بنا کر دئیے . جنھوں نے ترکوں کے خلاف ان کا ساتھ دیا تھا .اسی طرح کویت بھی انگریز کا بنایا ہوا ملک ہے .جب تک برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹ ان ممالک پر قابض ہیں .اسرائیل کے خلاف عربوں کا کوئی متحدہ محاذ قائم نہیں ہو سکتا اور نہ فلسطین ایک آزاد مملکت بن سکتا ہے.

امید کی کرن ،فلسطینیوں کا جذبہ حریت ہے .جس نے تمام دنیا کے پسے ہوۓ ، نا امید ،دل شکستہ کروڑوں لوگوں کے دلوں میں امید کی شمعیں روشن کر دی ہے . سلام ہے انکی جرت کو . جس  اسرائیل کا مقابلہ تمام عرب ملک مل کر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے .اس کا مقابلہ پچھلے سولہ مہینوں نے جس بہادری ، ہمت و جرت سے کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے.

امریکہ اور یورپ کی مالی ،سفارتی اور اسلحی مدد کے باوجود اسرائیل حماس کو مکمل طور پر کچلنے میں ناکام رہا ہے .اور نہ ابھی تک حماس کے قبضے سے اپنے قیدی چھڑوا سکا ہے .اسرائیل کی تمام تر بربریت ، عرب حکمرانوں کی بزدلی اور بے حسی -بھی غزہ کے مجاہدوں کے پاۓ استقلال میں لرزش نہیں لا سکی .سلام ہے ان یمنی جوانوں کو جو بھوک و ننگ اور وسائل کی کمی کے باوجود اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ ڈٹ کر کھڑے ہیں .وہ امریکہ ،برطانیہ اور اسرائیل کی فوجی طاقت سے مرغوب ہونے کی بجاۓ .جوابی وار کر رہے ہیں .یہ مجاہد عزم و ہمت کی جو لا زوال داستان رقم کر رہے ہیں .وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہے گی . انشاللہ !

اب سوال ہے کہ ہم ،عام لوگ فلسطین کے مظلوم لوگوں کیلئے کیا کر سکتے ہیں .یہ حقیقت ہے کہ ہم بندوق اٹھا کر غزہ نہیں جا سکتے . ہاں ہم انکے کیلئے اپنی آواز ضرور بلند کر سکتے ہیں . جس طرح امریکہ ،یورپ ، جاپان ،ملائشیا ، انڈونیشیا ، آسٹریلیا ،بنگلادیش اور دنیا کے دوسرے ممالک میں پر امن مظاھرے ہو رہے ہیں .ہم بھی انکی طرح اپنی آواز بلند کریں .اور اپنی اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کے وہ مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کیلئے اقوام متحدہ میں آواز اٹھائیں .اور جہاں جہاں دنیا میں ہم رہتے ہیں .اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں . قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے .

Thursday, 19 June 2025

کیا ہم پھر امریکی جنگ کا حصہ بنیں گے ؟

جو قوم تاریخ کو نظر انداز کرتی ہے . اسکا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقبل ! 
 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بڑے بڑے ہنگاموں اور فتنوں میں ،پہلا نقصان سچائی کا ہوتا ہے .کیوں ؟ کیونکہ  ظالموں اور جابروں کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے مطابق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی صلاحیت  رکھتے ہیں .سچائی کے بغیر ہم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط . سچائی نہ ہو تو باقی صرف جھوٹ اور نہ انصافی ہی بچتی ہے .
ایران کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے . اس پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ طاقتور کس طرح اپنے مفادات کیلئے جھوٹ کو سچ بنا کر نہ صرف اپنے عوام بلکہ دنیا کے باقی لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں .
یہی کچھ عراق ،لیبیا ،شام اور سوڈان میں کیا جا چکا ہے . ایران کے خلاف بھی اسی طرح کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے .مقصد یہ ہے کہ ایران کی حکومت کو اتنا کمزور کرر دیا جاۓ کہ ملک میں افراتفری پھیل جاۓ اور پھر باہر سے کراۓ کے دہشت گرد ایران میں داخل کر کے حکومت کا تختہ الٹ دیا جاۓ . اور عراق ، شام،لیبیا اور سوڈان کی طرح ایران کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں .تاکے مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار ہو اور عراق ،شام اور لیبیا کی طرح تیل کے ذخائر پر امریکہ کا قبضہ ہو جاۓ . اس طرح چین اور روس کا اثر و رسوخ بھی ایران میں نہ صرف کم بلکہ مکمل ختم ہو جاۓ گا . متحارب گروہ آپس میں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کیلئے دست و گریبان راہیں گے اور امریکہ آسانی سے تیل کی دولت لوٹ کر اپنا پیٹ بھرتا رہے گا .
عرب حکمرانوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ جنگ ایران پر ختم نہیں ہو گی .انکی بھی باری آنی ہے .اگر انھوں نے اسی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں تو نہ لبنان رہے گا ، نہ شام ، نہ عراق ،نہ اردن ، نہ مصر ، نہ کویت اور نہ سعودی عرب ؟
پاکستان کے آرمی چیف اس وقت امریکی صدر سے لنچ پر ملاقات کر رہے ہونگے . تاریخ میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ امریکی صدر کسی بھی ملک کے آرمی چیف سے ملاقات کرۓ گا . یہ ملاقات بلا وجہ نہیں ہو رہی . امریکی صدر کو عاصم منیر سے کچھ خاص چاہیے .اسلئیے اتنی مہربانی ہو رہی ہے . گو اس سے پہلے بھی پاکستانی آرمی چیف امریکی صدور سے ملتے رہے ہیں .لیکن وہ آرمی چیف کی حثیت سے نہیں بلکہ صدر پاکستان کی حثیت سے . مثال کے طور پر ایوب خان دو مرتبہ امریکہ گۓ ایک بار صدر کینیڈی اور دوسری بار صدر لینڈن جا نسن کی دعوت پر . صدر ضیاالحق کو صدر ریگن نے دورے کی دعوت دی .صدر مشرف نے ،امریکی صدر بش جونیئر کے دور میں امریکہ کا دورہ کیا .
ایک بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آرمی چیف کی امریکی صدر سے یہ ملاقات ایران کے تناظر میں ہو سکتی ہے .اس ملاقات کا پاکستان کے اندرونی حالات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہو سکتا .کیونکہ امریکی متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں فوجی جنرلز سے بات کرنا انکےلئے زیادہ آسان ہوتا ہے .پاکستان میں حکومت جس کی بھی ہو .امریکہ کو اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے .
امریکی صدر کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنا چاہتے ہیں .اس مقصد کیلئے انھیں پاکستان کی مدد درکار ہو گی . ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر اس بارے میں جنرل عاصم منیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں .تاکے پاکستان سے ایران کے خلاف ایک اور محاز کھولا جا سکے . اور ان بلوچوں کو جو ایران کے خلاف ہیں .انھیں ایرانی حکومت کے خلاف استعمال کیا جاۓ .
ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ جنرل عاصم منیر ایران کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ بنیں گے یا نہیں . لیکن اگر پاکستان امریکی اتحاد میں شامل ہو کر ایران کے خلاف کسی کاروائی کا حصہ بنتا ہے .تو یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے اچھا نہیں ہو گا . ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہماری ایران کے ساتھ لگنے والی سرحد بھی محفوظ نہیں رہے گی .اور اسرائیلی ہمارے سر پر بیٹھے ہونگے .
اسرائیل کو ہمارا ایٹمی پروگرام بھی بہت کھٹکتا ہے اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اسرائیل ایک بار پہلے بھی ہماری ایٹمی تنصیبات پر حملے کی کوشش کر چکا ہے .اس مقصد کیلئے وہ ہمیشہ بھارت کی مدد کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے . اسکے علاوہ پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بھی بات ہو سکتی ہے . ہو سکتا ہے امریکی صدر دونوں معاملات پر ہمارے آرمی چیف کو قائل کرنے کی کوشش کریں . امریکہ کیا چاہتا ہے بہت جلد سامنے آ جاۓ گا . کیونکہ امریکہ جس طرح اپنے بحری بیڑے اور جنگی ہوائی جہاز ایران کے قریب اکھٹے کر رہا ہے .اس سے تو لگتا ہے کہ ایران پر جلد امریکی حملہ متوقع ہے .
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بن کر پہلے بھی ہم نے اپنا ہی نقصان کیا تھا .کیا ایران کے خلاف امریکی اور اسرائیلی جنگ کا حصہ بن کر ہم وہی غلطی دہرانے جا رہے ہیں ؟
یا ہم یہ ثابت کرنے پر تلے ہوۓ ہیں .کہ ہم وہ ہیں جو تاریخ سے کبھی نہیں سیکھیں گے اور بار بار وہی غلطی کریں گے .جس سے پہلے بھی بارہا نقصان اٹھا چکے ہیں.

Friday, 6 June 2025

Yajuj Majooj (Gog Magog).

Yajooj Majooj is not a mythical nation or a group of people who will come in the future to destroy the whole world. They are in every country that controls governments, big landlords, bankers, stock owners, media owners, Kings, Amirs, dictators, and the elite.

If one looks at the third-world countries, especially the Islamic world, who perpetrate chaos and violence? The elite who own and control everything. In the subcontinent, there is another group that can be included: Yajooj Majooj, Pirs, and religious leaders.

Gog Magog is mentioned in the Jewish and Christian traditions too.

Throughout the Middle Ages, Vikings, Huns, Khazars, Mongols, Turanians some other nomads and even the Lost tribes of Israel were identified as Gog and Magog. Not so long ago, Communist Russia and China were called Gog and Magog.

Yajooj Majooj mentioned in 2 chapters of the Holy Quran. Chapter 18 Al Kahaf and Chapter 21 Al Anbiya.

Al Kahaf verse 94.

قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَىٰ أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا .94

“They informed him: “O Zal Qarnain, indeed, here we have an elite group of perpetrators of chaos and violence (یاجوجَ و ماجوجَ مفسدونَ) in our land; so what about us offering you recompense if you create between them and us a protective division.” (translation by Aurangzaib Yousafzai)

Al Anbiya verse 95–96

وَحَرَامٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ‎﴿٩٥﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ ‎﴿٩٦﴾

21:95-96 “It becomes a state of prohibition (حرام) imposed upon those communities (علیٰ قریۃ) whose violation of our laws have sunk into disgrace and oblivion (اھلکناھا), that they can’t regain their former status (یرجعون), unless the perpetrators of corruption in their societies (یاجوج و ماجوج) are conquered/overcome (فُتحت) and they are plucked apart from all higher posts of power and authority (من کل حدب) and thrown away by cutting into pieces (ینسلون).” (translation by Aurangzaib Yousafzai).

Hebrew word (gag), usually meaning roof or rooftop:

Since a society was a “house,” its “rooftop” referred to that society’s governing council. The elite.

Gog Magog: the Rooftop and Place Of The Rooftop

The elite of a society are those in the upper classes or those who metaphorically live on the roof (top) of society. Those who control the institutions and wealth/well-being of a nation. Once these elite/Gog Magog are corrupted and only benefit each other rather than society as a whole, they must be purged by that society, which has been impoverished and destitute by these elites, otherwise, no nation can regain its former heights and glory. A bloody revolution is required to purge the nation from this scum.

This is my understanding of Yajooj Majooj (Gog Magog).

Thursday, 5 June 2025

!آنکھیں کھلی تو

 ڈیسمنڈ ٹوٹو ،جنوبی افریقہ کے سیاہ فام مذہبی رہنما اور انسانی حقوق کے علمبردار تھے .انکی ساری زندگی جنوبی افریقہ کی اکثریت کے بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد میں گزری .  وہ ساری زندگی سفید فام اقلیت کی نسلی امتیاز کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے .1984 میں انھیں نوبل پیس پرائز سے نوازا گیا . وہ 2021,میں فوت ہوۓ .
انھوں نے ایک بار کہا کہ ،جب سفید فام مشنری افریقہ آۓ .تو انکےپاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمین ،یعنی تمام وسائل . انھوں نے کہا کہ آؤ آنکھیں بند کرو .ہم سب ملکر دعا کرتے ہیں .جب ہم نے آنکھیں کھولی تو کتاب ہمارے پاس تھی اور ساری زمین اور وسائل انکے پاس .
پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا .گو ہماری اشرافیہ نے ہمارے ہاتھ میں کتاب تو نہیں پکڑائی .لیکن انھوں نے حربہ وہی استعمال  کیا جو انکے آقا انگریز نے انھیں سکھایا تھا .یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو .مغربی پاکستان میں ان کا یہ حربہ کافی  کامیاب رہا .اس خطے کے لوگوں کو ،نوری ،ناری اور خاکی اشرافیہ نے ،علاقائی لسانی اور مذہبی تفرقہ بازی میں ایسا الجھایا کہ ہم لٹیروں کے خلاف متحد ہونے کی بجاۓ آپس میں لڑتے رہے .
لیکن مشرقی پاکستان میں انکا یہ حربہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا .انکی آنکھیں 1970،ہی میں کھل گئیں .اور انھوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا .گو اس میں بھی زیادہ  قصور مغربی پاکستانی اشرافیہ کا تھا .
مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے بعد بھی انکی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی .اس اشرافیہ نے پہلے سے زیادہ دیدہ دلیری ،خود غرضی سے فسطائی ہتھکنڈے جاری رکھے .اگر غور کریں تو آج تک انکے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی . اس زمانے میں بھی یہ سمجتھے ہیں کہ پاکستان کے عوام کو کھوکھلے نعروں ، جھوٹی تاریخ اور طاقت کے بے دریغ استعمال سے دبایا جا سکتا ہے .
ڈیسمنڈ ٹوٹو نے جو کچھ سفید فام مشنریوں کے بارے میں کہا تھا .ویسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے . اس اشرافیہ نے ہمیں کھوکھلے نعروں اور جھوٹھی تاریخ میں ایسا الجھایا کہ اب جب ہماری آنکھ کھلی ہے تو ہمارے ہاتھ خالی ہیں اور تمام وسائل پر یہ قابض ہیں. 

Friday, 30 August 2024

!آکسفورڈ یونی ورسٹی کےقابل اور ممتاز ترین سابق طلباء

آکسفورڈ کی نو سو سالہ تاریخ کے سو  قابل اور ممتاز ترین سابق طلبہ کی فہرست جاری . اس فہرست کے مطابق عمران خان چوتھے نمبر پر ہیں .
آکسفورڈ یونی ورسٹی دنیا کے  قدیم ترین تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے .اسکا آغاز 1096, عیسوی میں ہوا .1167,عیسوی میں یہاں پر تعلیمی سرگرمیوں میں تیزی اس وقت آئی .جب کنگ ہینری دوم نے انگلش طالب علموں کے پیرس یونی ورسٹی میں داخلے پر پابندی لگا دی .
29، فروری 2024,، کو آکسفورڈ یونی ورسٹی کی تاریخ کے 100،ممتاز ترین افراد کی ایک فہرست جاری کی گئی .یعنی آکسفورڈ کی 900, سال سے زائد کی تاریخ کے قابل اور ممتاز ترین سابق طلباء . جنھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا .اور کار ہاۓ نمایاں سر انجام دئیے .
اس فہرست میں پاکستان کے چار افراد شامل ہیں .ان میں سے تین تو اس جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہیں .
باباۓ قوم قائد آ عظم محمد علی جناح .
ذولفقار علی بھٹو .
حسین شہید سروردی . 
اس فہرست میں چوتھا نام ،مرشد عمران خان کا ہے .جو اس 100, افراد کی لسٹ میں بھی چوتھے نمبر پر ہیں .
اس فہرست کے مطابق قائد اعظم9, نمبر پر ہیں .
ذولفقار علی بھٹو 28,نمبر پر اور 
حسین شہید سروردی  99, نمبر پر ہیں .
ہمارے لئیے یہ خوشی اور فخر کا مقام ہے کہ پاکستان سے چار محترم شخصیات آکسفورڈ کی اس فہرست میں شامل ہیں . 
1992،کے کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان ، پاکستان تحریک انصاف کے بانی ،شوکت خانم کینسر ہسپتالوں کی بنیاد رکھنے والے اور دو بین الاقوامی معیار کی یونی ورسٹیاں بنانے والے ،پاکستان اور پاکستانیوں کے ہمدرد اور خیر خواہ ،اقوام متحدہ میں اسلام کا مقدمہ لڑنے والے ، کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے والے ، عمران خان آکسفورڈ کے 100,قابل اور ممتاز ترین افراد کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہیں .
بقول عمران خان ، الله الحق ہے .سچ کا خدا ہے . یقینا الله بہترین تدبیر کرنے والا ہے .
نوٹ .
دنیا کی سب سے پرانی یونی ورسٹی ،بولانگا یونی ورسٹی کو مانا جاتا ہے .جو اٹلی کے شہر بولانگا میں  1088،عیسوی میں قائم ہوئی .
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سب سے پرانی یونی ورسٹی ، مراکش کے شہر ،فض میں 859،عیسوی میں قائم کی گئی .اس وقت سے لیکر آج تک اس درس گاہ میں درس و تدریس کا عمل جاری ہے .لیکن مغربی تعصب یہ حقیقت ماننے کو تیار نہیں .

Tuesday, 20 August 2024

Whom the gods wish to destroy!

The quote "Whom the gods wish to destroy, they first make mad" implies that before a person or society comes to ruin, they may be led to irrational behavior or poor decision-making. Applying this idea to Pakistan’s current situation requires examining various social, political, and economic factors.

Political Shakiness: Pakistan has encountered critical political unrest, remembering changes in government, charges of debasement, and political infighting. This shakiness can prompt unfortunate administration and an absence of rational strategy-making, causing residents and lawmakers to act nonsensically or with childishness. The 'franticness' here should be visible in the political methodology decisions that compound divisions instead of advancing solidarity.

Financial Difficulties: Pakistan faces serious monetary hardships, including high expansion, obligation, and joblessness. Amid financial pressure, people might fall back on frantic measures, like fights or viciousness. The aggregate disappointment can establish a tumultuous climate, leading to an impression of franticness inside society as individuals respond to their critical conditions.

Social Agitation: The ascent of fanaticism and partisan viciousness in pieces of Pakistan can be seen from this perspective. In the event that a general public encounters significant disillusionment and vulnerability, it might prompt radicalization and vicious way of behaving, which can additionally weaken the locale and dissolve a social union. The 'frenzy' could address the social breakdown in light of seen existential dangers.

Unfamiliar Relations: Pakistan's associations with adjoining nations, particularly India and Afghanistan, frequently impact its interior elements. Errors or forceful positions in international strategy can prompt expanded pressures that make a pattern of dread and counter, further convoluting the administration and social strength.

In synopsis, the statement can be applied to Pakistan's circumstances by looking at how different types of frenzy—political, monetary, and social—can prompt and reflect further emergencies. At the point when frameworks separate, judicious ideas are often the main setback, prompting choices that further fuel the front-and-center concerns. Understanding these elements is vital for resolving the hidden issues and pursuing a more steady and prosperous future for the country.