Tuesday 30 April 2013

Wednesday 24 April 2013

Religion & Politics

"Those who say religion has nothing to do with politics do not know what religion is". 
Benjamin Franklin.

Tuesday 23 April 2013

Advice!

" Believe nothing until it has been officially denied." Claude Cockburn.

Quote of the Day!

" I hope the time is not far off when I shall be able to unite all the wise and educated men of all the countries and establish a uniform regime based on the principal of Quran which alone are true and which alone can lead men to happiness."  Napoleon Bonaparte

M.A Jinnah said.

I have lived as plain Mr. Jinnah and I hope to die as plain Mr. Jinnah. I am adverse to any titles or honours and will be more than happy if there were no prefix to my name.

Monday 22 April 2013

Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah



اسلام ، قران اور سائنس


مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی شعوری کوشش کریں۔ جو ہماری شخصی اور اجتماعی زندگی کی بنیاد ہے۔
جب تک ہم قرآن کو سمجھیں گے نہیں ہم دنیا میں عظمت اور بلندی حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔ مسلمانان عالم کو اپنی موجودہ حالت پر غور و فکر کرنا چاہیے ۔ ہم دنیا میں سینکڑوں کتابیں پڑھتے ہیں ، بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن ایک اہم آسمانی کتاب قرآن کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ ہم نے قرآن کو صرف ثواب کمانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم خود (مسلمان) قران سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں۔ علما ء حضرات اپنی تقریروں میں بے شمار کتابوں کا حوالہ بھی دے دیتے ہیں۔ روایات گا گا کر لوگوں کو سناتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک آدھ قرآنی آیت کا حوالے بھی دیتے ہیں۔ لیکن قرآن پڑھنے ، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی نہ خود شعوری کوشش کرتے ہیں ۔ نہ عام مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے ۔کہ ہم خود بہت سے علما حضرات سے یہ سن چکے ہیں کہ قرآن بہت مشکل ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے انسان کو عالم ہونا چاہئے۔ ہمیں چونکہ عربی زبان نہیں آتی اور قرآن کا مکمل ترجمہ تو کسی بھی زبان میں نہیں ہو سکتا ۔ لہذا مجبوری ہے ، ہم کیا کریں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کا ترجمہ دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہو چکا ہے ۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ قرآن کا ترجمہ مکمل طور پر نہیں ہو سکتا تو جتنا ترجمہ ہو چکا ہے ۔ اس سے تو فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔ اگر ہم روایات ، احادیث وغیرہ کا ترجمہ آسانی سے پڑھ سمجھ کر دوسروں کو سنا سکتے ہیں تو قرآن کو اردو زبان میں پڑھنے اور سمجھنے میں کیا مشکل پیش آ سکتی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
“اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا ہے تو ہے کوئی سمجھنے والا”
محمد رسول اللہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ کے رسول ہر پیغمبر کا معجزہ تھا ۔ آپ کا کیا معجزہ ہے تو رسول اللہ نے فرمایا “اللہ کا لفظ یعنی قرآن کریم”
ہمارے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ ہم قرآن کا بھی علم حاصل کریں ۔ اسے پڑھیں ، سمجھیں اور پھر اس پر دل کی گہرائی سے عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی کا انحصار ہے۔
کائنات کا سائنسی علم ایک مومن کی میراث ہے ۔ جسے وہ بدقسمتی سے صدیوں پہلے گم کر چکا ہے۔
قرآن کریم میں 750 مرتبہ مسلمانوں کی توجہ سائنسی حقائق کی طرف مبذول کرائی گئی ہے۔ مثلاً
“یقیناً کائنات کی بلندیوں اور پستیوں کی تخلیق اور لیل و نہار کی گردش میں صاحبان عقل و بصیرت کے لئے حقیقت تک پہنچنے کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ 3/190-189
یہ اور بات ہے کہ ہم سائنسی حقائق اور انکشافات کو بھی جنوں ، پریوں کی داستانیں یا کسی دوسرے جہاں کی باتیں سمجھ کر نظر انداز کرتے جا رہے ہیں۔
سورۃ انفال آیت 22 ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے
“یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے ، گونگے لوگ ہیں۔ جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ ”
قرآن قیامت تک نوع انسانی کے لئے سراسر ہدایت ہے ۔
یہ فزکس ، کیمسٹری ، حساب، و معاشیات وغیرہ کی کتاب نہیں ہے۔ ہاں قرآن میں اللہ تعالی نے بہت سے حقائق ، قوانین جو نوع انسانی کی بقا اور ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ بیان فرما دیتے ہیں تاکہ ہم ان سے رہنمائی حاصل کریں اور جو غلطیاں ہم سے پہلے آنے والے کر چکے ہیں۔ ان سے بچ کر تباہی سے محفوظ رہ سکیں ۔ کچھ قوانین و اصول جو نسل انسانی کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔ انہیں اللہ تعالی نے خود متعین فرمایا دیا ہے۔ تاکہ ان کی حدود میں رہتے ہوئے ہم ارتقا کی منازل طے کرتے جائیں اور اسطرح اس دنیا میں بھی خوشگواریاں حاصل کریں اور آخرت میں بھی انعامات کے حقدار ٹھہرائے جائیں۔ عام طور پر ہمارے پڑھے لکھے افراد کی اکثریت اسلام کو اپنی ترقی (مادی) کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے توہم نے اسے صرف چومنے اور ثواب کمانے کا ذریعہ سمجھا ہوا ہے۔ مغرب والوں نے بھی اسلام کے خلاف یہی پروپیگنڈہ کیا ہے ۔ کہ اسلام چودہ صدی پہلے کا مذہب ہے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اسلام ہمارا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ لہذا جس طرح مغرب نے عیسائیت کو صرف گرجا تک محدود کر دیا ہے۔ اسی طرح اسلام کو بھی صرف مسجد تک محدود کر دینا چاہیے۔ مغرب کی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلامی ممالک کے مغربی تعلیم سے آراستہ افراد کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی اسی نقطہ نظر کی حامی بن چکی ہے۔
ان کا خیال ہے کہ مغرب نے جو ترقی کی ہے وہ اسی لئے ممکن ہوسکی کہ انہوں نے مذہب سے جان چھڑا لی تھی۔ مذہب اور سائنس دو متضاد چیزیں ہیں۔ یہ دونوں کبھی بھی اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے اس نے واقعی یورپ میں علم دشمنی پر کمر باندھے رکھی۔ ایک مشہور مغربی مفکر مسٹر اے ای ٹیلر لکھتے ہیں کہ ” میں کسی ایسے سائنٹفیک اور خدا کی طرف دعوت دینے والے مذہب کو خوش آمد ید کہوں گا جو ہمیں فطرت انسانی اور ایسی مضحکہ خیز تہمت پر ایمان رکھنے کی ضرورت سے بچا لے۔ ”
یاد رہے کہ عیسائیت نے شر کو انسان کی فطرت میں مستقل طور پر داخل کر دیا تھا۔ لیکن اسلام اور قرآن کے بارے میں یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ قرآن ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اسلام نے ہی آج سے چودہ سو سال پہلے جہالت کی تاریکی کو دور کیا تھا۔ مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں وہ کارہائے نمایا ں سرانجام دئیے جن کی ان سے پہلے تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
جو شخص محض مغربی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر اسلام کے بارے میں بہتان باندھتا ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کافی ہے۔
” بکثرت لوگوں کا حال یہ ہے کہ علم کے بغیر محض اپنی خواہشات کی بنا پر گمراہ کن باتیں کرتے ہیں۔ ان حد سے گزرنے والوں کو تمہارا رب خوب جانتا ہے۔ ” سورۃ الانعام آیت 119
اسلام اور علم لازم و ملزوم ہیں ۔ رسول اللہ کی حدیث ہے ۔ علم (سائنس) حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔
رسول اللہ کے نزدیک علم کی کیا اہمیت تھی ۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ جنگ بدر میں کفار کے جو افراد میدان جنگ سے قیدی بنائے گئے۔ ان میں سے جو افراد جزیہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ مدینہ کے دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں۔
جو قوم اتنے مشکل حالات میں کہ جب اس کی بقا کو خطرات لاحق ہوں اس کی آزادی داؤ پر لگی ہو ۔ علم کے بارے میں اتنی حساس ہو وہ کبھی علم دشمن ہو سکتی ہے؟
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے اس کے بارے میں ہم مشہور فرانسیسی مفکر ڈاکٹر فورس بکائیل کے یہ الفاظ نقل کریں گے ۔ جو انہوں نے اپنی کتاب بائیبل ، قرآن اور سائنس میں قرآن کے بارے میں کہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔
قرآن میں کوئی ایک بیان بھی ایسا نہیں ہے کہ جو موجودہ ترقی یافتہ سائنسی انکشافات سے متصادم ہو۔
اسلام کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں
کہ اسلام میں مذہب اور سائنس ہمیشہ دو جڑواں بہنیں رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہمیں آگے ہی آگے بڑھنے کی تعلیم اور دعوت دیتا ہے ۔ وہ قوموں کی قیادت کا تاج ہمارے سر پر رکھنا چاہتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی کم فہمی اور علم کی کمی کی وجہ سے اس کے پیغام کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔
قرآن ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے۔
“تم سے پہلے بہت سے دور گزر چکے ہیں۔ زمین میں چل پھر کر دیکھ لو ۔ ان لوگوں کا انجام کیا ہوا۔ جنہوں نے اللہ کے احکام و ہدایت کو جھٹلایا۔ سورۃ آل عمران آیت نمبر 137
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ قرآن میں 750 مرتبہ مسلمانوں کی توجہ سائنسی حقائق کی طرف مبذول کرائی گئی ہے ۔ اگر ہم خود اس پر توجہ نہ دیں تو اس میں قصور اسلام یا قرآن کا نہیں ۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا سائنسدانوں نے بگ بینک کا نظریہ پیش کیا ۔ ابھی اس نظریہ پر مزید کام ہو رہا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آج سے چودہ سو سال پہلے بیان فرما دیا کہ یہ کائنات ایک شدید اور اچانک دھماکے کی پیداوار ہے۔
سورۃ فلق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
“کہو میں پناہ مانگتا ہوں ، فلق کے رب کی ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی”
سورۃ فلق کی یہ پہلی دو آیات ہیں ہم روزانہ کتنی بار تلاوت کرتے ہیں لیکن ہم ان کے معنی کی گہرائی میں جانے سے قاصر رہے ہیں۔
یہ آیات دراصل کائنات کی تشکیل کے متعلق ایک اہم پیغام دے رہی ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ پیغام چودہ صدی پہلے دیا گیا تھا۔ جس کو جدید سائنس نے اب بیان کرنا شروع کیا ہے۔ سورۃ فلق میں انسان اور دوسری مخلوق کی پیدائس سے متعلق بےحد اہم پیغامات دئیے گئے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ اہم اور دلچسپ پیغام وہ ہے جو فزکس اور حیاتیات (بیالو جی) کے علم کے نکتہ نظر سے پہلے ہی آیت میں بیان کر دیا گیا ہے۔ لفظ فلق ان آیات کی تشریح کے سلسلے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ اللہ تعالی کی اس صفت کا بطور خاص اس طرح اظہار ہے کہ وہ فلق کا رب ہے۔
لفظ فلق کئی معنوں کا حامل ہے ۔ مگر اس کا بنیادی مطلب اچانک پھاڑا جانا اور ایک شدید دھماکہ ہے۔ ایک اور معنی کے لحاظ سے اس کا مفہوم پھٹ جانا بھی ہے۔ یعنی یہ نظریہ ایک مخصوص قسم کے دھماکے کے نتیجہ کو ظاہر کرتا ہے ۔ “فلق” ایک شدید ترین دھماکے کی پیداوار ہے ۔ فلق ایک بے حد زیادہ اور غیر معمولی رفتار کے معنی بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔
اس کے تشریح کے سلسلے میں مفسرین کی اکثریت نے عام فہم معنی ہی مراد لئے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس کے تمثیلی معنی پسند کئے ہیں۔ (یعنی صبح ، دن کا آغاز۔ سورج کا نکلنا وغیرہ) ابن سینا نے اس کے معنی اس بچہ سے مراد لئے ہیں جو ماں کے پیٹ سے برآمد ہوتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ فلق کے معنی ہیں وہ نتیجہ یا وجود جو ایک اچانک اور شدید دھماکے سے پیدا ہوا ہو۔ چنانچہ اس آیت مقدسہ کا ترجمہ یوں ہو سکتا ہے کہ
” کہو میں پناہ مانگتا ہوں (بگ بینگ والی تخلیق کے رب سے ) اس کی پیدا کردہ چیزوں کے شر سے ۔ ”
یہ سورۃ اللہ تعالی کی زبان میں یہ کہتے ہوئے معلوم ہو رہی ہے کہ ” میری ربوبیت میں ان تمام پیدا کردہ چیزوں سے پناہ حاسل کرو۔ جو میرے حکم پر ایک دھماکے کے ذریعے وجود میں آئیں ۔ میں ہی تمہارا مالک ہوں۔ اور میں ہی ان کہکشاؤں کا حاکم مطلق ہوں۔ جن کو ایک حیران کن دھماکے کے ذریعے جو ایک اکائی سے شروع ہوا، پیدا کر کے فضائے بسیط کی لا متناہی دوریوں تک پھیلا دیا گیا ۔ جو کوئی بھی مجھ میں پناہ لیتا ہے وہ تمام قسم کی برائیوں اور شر سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔
اسلام ہی وہ دین ہے جو نسل انسانی کی بقا کا ذریعہ ہے ۔ جوں جوں ہم علم حاصل کرتے جائیں گے۔ ( قرآن اور سائنس) کا ہم دنیا میں ترقی کی منازل طے کرتے جائیں گے۔
ہم تباہی سے صرف اسی صورت محفوظ رہ سکتے ہیں کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ قوانین اور اصولوں پر عمل کریں۔ ورنہ پچھلے تین  سو سالوں سے ہم پر جو عذاب آیا ہوا ہے ۔ اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
تحریر ۔ صلاح الدین احمد