Friday 2 November 2018

! جلاؤ گہراؤ اور مذاکرات

  سپریم کورٹ کی طرف   سے آسیہ بی بی  کی سزاۓ موت کالعدم قرار دئیےجانے  اور  اسکی رہائی کے فیصلے کے بعد ملک میں تحریک لبیک کی طرف سے دھرنے اور احتجاج نے ایک انتہائی نازک صورت حال پیدا کر دی ہے . تحریک لبیک کے قائدین کا دعوا   ہے کہ انکا احتجاج پر امن ہے . لیکن موٹر وے ، جی -ٹی -روڈ اور فیض آباد کے مقام پر جو کچھ لوگوں کے ساتھ کیا گیا . جس طرح لاہور   میں سرکاری اور نجی املاک اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور آگ لگائی گئی .  اسے  کسی صورت پر امن نہیں کہا جا سکتا .  
حکومتی وزرا   کے ساتھ ساتھ   ٹی - وی  اور اخباری بچھو   جو اپنے آپ کو تجزیہ کار اور دانشور کہلانا پسند کرتے ہیں . مذاکرات  کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں . اپوزیشن کے بعض ارکان اور وہ قوتیں جو پاکستان میں ہمیشہ افراتفری پھیلانا چاہتی ہیں . در پردہ تحریک لبیک کی حمایت کر رہی ہیں . مولوی فضل الرحمن ان قوتوں کا ایک سرگرم نمائندہ ہے . جس نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کیلئے  مذہب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے .
جو دھرنا دئیے بیٹھے ہیں ان سے تو مذاکرات ہو رہے ہیں . لیکن جو عام شہریوں کو تنگ کر رہے ہیں . جنھوں نے معصوم لوگوں کی گاڑیاں جلائی ہیں . ان سے حساب کون لے گا . کیا حکومت کا کام صرف   بات چیت کرنا ہے . عوام کے جان و مال کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے ؟ 
ہماری حکومت سے گزارش ہے کہ جنھوں نے لا قانونیت کی سرکاری اور نجی املاک کا نقصان کیا . ان کو قانون کے شکنجے میں لایا جاۓ . انھیں سزا دی جاۓ . اور عوام کے نقصان کا ازالہ کیا جاۓ . شر پسند عناصر کو مذاکرات اور نرم الفاظ سے کبھی بھی راہ راست پر نہیں لایا جا سکتا . یہ لاتوں کے بھوت ہیں .