Thursday 25 December 2014

Man of Faith by Iqbal.

 Iqbal said it beautifully in a couplet in Persian:
 “You ask me about the signs of a man of faith? When death comes to him, he has a smile on his lips.” 

Monday 8 December 2014

! گوبلز سے معذرت کے ساتھ

وفاقی وزیر اطلاعات جناب پرویز شریف ،معا ف کیجئے گا ،پرویز رشید صاحب نے آج فرمایا کہ ،عمران خان پہلے کہتے تھے ،حلقے کھولیں ،اب کہتے ہیں تھیلے کھولیں ؟خان صاحب کی یاداشت کمزور ہے .......
وزیر اطلاعات کے اس بیان کا کیا مطلب ہے .اس کی وضاحت  بھی وہ خود ہے کر سکتے ہیں .ہم صرف اتنا کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ جناب تھیلے کھلیں گے تو پتا چلے گا کہ اندر سے ووٹ نکلتے ہیں یا ردی کے کاغذ ؟پھر اس سے یاداشت کی کمزوری کا کیا واسطہ ؟
اصل میں جناب کو آج کل اتنی پریس کانفرنسیں کرنی پڑ رہی ہیں کہ جناب خود بھول جاتے ہیں کہ پہلی کانفرنس میں آپ نے کیا فرمایا تھا .
پاکستانی میڈیا میں آج کل پرویز رشید صاحب کو گوبلز سے تشبیہ دی جا رہی ہے .گوبلز دوسری جنگ عظیم میں جرمنی  کے پراپیگنڈہ انچارج تھے .گوبلز کو جدید پراپیگنڈہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے .کہاں گوبلز اور کہاں ہمارے پرویز رشید صاحب ؟ہماری صاحبان عقل سے گذارش ہے کہ گوبلز کی روح کو شرمندہ نہ کریں .گوبلز پر اس کی قوم یقین کرتی تھی .جبکہ ہمارے وزیر صاحب پر شائد ہی کوئی یقین کرتا ہو .......ایسا لگتا ہے کہ انکی حکومت بھی ان پر یقین نہیں کرتی .اسی لیے انھیں ایک کے بعد ،دوسری پریس بریفنگ دینی پڑتی ہے .
ہماری وزیر موصوف سے عرض ہے کہ جناب آپ وزیر اطلاعات ہیں ،وزیر پراپیگنڈہ نہیں ہیں .آپ کا فرض پاکستانی قوم کو درست معلومات فراہم کرنا ہے .اپوزیشن کا تمسخر اڑانا نہیں ؟؟؟؟؟؟
نذیر ناجی صاحب نے اپنے ایک کالم میں لکھا ،کہ لوگ بھی عجیب ہیں -گوبر کو گوبلز کہہ رہے ہیں ؟

Sunday 7 December 2014

مذاکرات کا کیا ہو گا ؟

پی -ٹی -آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کیا نتیجہ خیز ہونگے .یا مزید وقت حاصل کرنے کیلئے ،حکومت بات چیت کو طول دیتی رہے گی .اس وقت تک جب تک پی -ٹی -آئی کی قیادت تھک ہار کر .اس نقطہ پر نہیں آ جاتی .جس پر حکومت انھیں لانا چا ہتی ہے .
جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے .اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان لوگوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے .جو انتخابات کے دن پکنک منایا کرتے تھے .جنھیں کبھی اس سے کوئی غرض نہیں رہی کہ انتخابات میں کونسی جماعت جیتی اور کونسی ہارتی ہے .وہ اس سے مکمل طور پر لا تعلق تھے .انتخابات کے دن ووٹ ڈالنے کیلئے ،قطار میں کھڑا ہونا ان کیلئے کسی بڑی آزمائش سے کم نہ تھا .لیکن آج وہی لوگ جنھیں ہمارے سیاستدان ،ممی ڈیڈی ،برگر جنریشن ،کمزور ،نازک مزاج کہتے نا تھکتے تھے .تحریک انصاف کے دھرنوں اور جلسوں کی شان ہیں .مسلسل سڑکوں پر آ کر ان لوگوں نے خاص طور پر خواتین نے ،یہ ثابت کر دیا ہے .کہ ان میں عزم و ہمت اور جذبے کی کمی نہیں ہے .یہی ایک ایسا مثبت عمل ہے ،جو آگے چل کر پاکستانی معاشرے اور اس موجودہ نظام میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا موجب بنے گا .
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس عوامی بیداری سے موجودہ نظام کہاں تک تبدیل ہو گا .یا عوام کو ان کے بنیادی حقوق کیسے ملیں گے .اس بارے میں تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کیلئے اچھا خاصا وقت درکار ہوتا ہے .جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے .قربانیاں دینی پڑتی ہیں .مار کھانی پڑتی ہے .یہاں تک کہ خون بھی دینا پڑتا ہے .تب کہیں جا کر امید بر آتی ہے .
ترقی  یافتہ ممالک ،مہذب ممالک یا وہ ممالک جنھیں مغرب کہا جاتا ہے -وہاں پر بھی عوام کو اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے ،بڑی طویل جہد و جہد کرنا پڑی .آج جن حقوق پر مغرب فخر کرتا ہے .وہ حقوق مقتدر طبقوں نے پلیٹ میں رکھ کر انھیں پیش نہیں کیے .مثال کے طور پر ،مزدوروں کے حقوق ،آٹھ گھنٹے کام کے اوقات ،عورتوں کے حقوق ،سماجی ،سیاسی ،معاشی آزادی ،صحت و تعلیم کی سہولتیں ،انصاف کا نظام ،مرد و زن میں برابری ،عام لوگوں کیلئے ووٹ کا حق ،ان سب کیلئے مغرب کے لوگوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں .
ہمیں بھی اپنے حقوق کیلئے جنگ لڑنی پڑے گی .جن افراد ،گروہوں اور طبقوں نے پاکستان کے وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے .وہ اتنی آسانی سے ہماری جان نہیں چھوڑیں گے .ہم ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں .اگر ہم متحد اور ثابت قدم رہیں .انشااللہ !!!!!!!!!!!!!!!