Friday 21 June 2013

الطاف حسین کی دھمکیاں

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے دو دن پہلے اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان سے پاکستانیت چھینی گئی تو پھر ملک کے خاتمے کا اعلان ہو جائے گا ۔
ان کا یہ بیان پاکستان کے تقریبآ تمام اخبارات میں کم و بش انہی الفاظ میں شائع ہوا ۔
 ہم پاکستانی ہونے کے ناطے ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کرنا چایتے ہیں کہ ان سے انکی پاکستانیت کون چھین رہا ہے ان کو ضرور وضاحت کرنی چاہے۔
وہ خود پاکستان کو عرصہ ہوا چھوڑ چکے ہیں۔ محترم قائد برطانوی شہری ہیں برطانوی شہریت انھوں نے خود درخواست دے کر حاصل کی ہے اگر پاکستانیت سے ان کی مراد پاکستانی شہریت ہے تو وہ خود اسے کب کے ترک کر چکے ہیں جو چیز انہوں نے خود چھوڑ دی ہے اب کون ان سے چھین سکتا ہے۔
 معذرت سے عرض ہے جب بھی آپ کی طبیعت ناساز ہوتی ہے آپ ہمارے ملک پاکستان کے پیچھے کیوں پڑ جاتے ہیں جس سرزمین نے آپ کو پہچان دی عزت، شہرت ،دولت اور اختیار دیا آپ کیوں اس کا خاتمہ چاہتے ہیں پاکستان کے سارے عوام نہ سہی ان لوگوں کا کچھ خیال کر لیں جو آپ کے اشارہ ابرو پر اپنی جان دینے اور لینے پر تیار ہو جاتے ہیں یہ ملک نہ رہا تو آپ کے ماننے والے کہاں جائیں گے آپ کے شاہانہ اخراجات کے لیے کروڑوں روپے کہاں سے آئیں گے آپ کا خطاب بے جان چیزوں کی طرح کون گھنٹوں بیٹھ کر سنے گا۔ محترم قائد اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی نہ چلائیں ساری بہاریں اس ملک یعنی پاکستان کی وجہ سے ہیں
 ایک اور عرض ہے پاکستان انشاءللہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہے گا آپ کی دھمکیاں اس کاکچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گی ۔
 میں ،آخر میں آپ کے وہی الفاظ دھرانا چاہتا ہوں ۔جو آپ نے آپنے ایک خطاب میں کہے تھے ۔
کتے بھونکتے رہتے ہیں
 کارواں چلتا رہتا ہے

Tuesday 18 June 2013

عوام اور حکومت

کہتے ہیں ، ہر حکومت عوام کا عکس ہوتی ہے یعنی جیسے عوام ہوں گے۔ ویسی ہی ان پر حکومت ہو گی۔ کیونکہ عوام ہی حکومتوں (نمائندوں) کو منتخب کرنے والے ہوتے ہیں۔جیسے عوام نمائندے منتخب کریں گے ویسی ہی وہ منتخب نمائندے حکومت بنائیں گے۔ عوام جب اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو سامنے رکھ کر ووٹ دیں گے۔ تو ان کے منتخب کردہ نمائندے بھی اپنے چھوٹے موٹے مفادات کو سامنے رکھ کر حکومت قائم کریں گے۔
جیسے کہتے ہیں "جیسی کرنی ویسی بھرنی"
جیسا عوام ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں ویسا ہی انہیں بعد میں بھگتنا پڑتا ہے۔ اب جبکہ انتخابات ہو چکے ہیں ۔ عوام کی منتخب حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اب عوام سے یہ کہنا کہ سوچ سمجھ کر ، علاقائی ، ذاتی ، اور گروہی مفادات سے بالا تر ہو کر ووٹ دیں ۔ ممکن نہیں ہے۔ اب صرف یہ کہا جا سکتا ہے۔
کار جہاں دراز ہے
اب اگلے انتخابات کا انتظار کر
ٹامس کارلائل نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ پہلے کہا تھا کہ
"In the long run every government is the exact symbol of its people, with their wisdom and unwisdom. we have to say, like people like government."

دانشور، مشاہدہ اور کامن سینس

جب بھی گفتگو کے دوران کامن سینس کی بات آتی ہے ۔ میرے ایک محترم دوست وسیم احمد ہمیشہ کہتے ہیں
"Which is not very common"
دانشوری اپنی جگہ مشاہدہ اپنی جگہ اور کامن سینس اپنی جگہ ہے۔ دانشوروں کی مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ جس بات پر اڑ جائیں اس سے ہٹنا ان کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔
اکثر اوقات وہ مشاہدے یا نظر ثانی کو کوئی جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
آج ہم اس دانشور، فلسفی کا ذکر کریں گے ۔ جو مشہور عالم ہیں ، دو ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کی شہرت میں کوئی کمی نہیں ہے۔ بلکہ انسانی علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ انکی عزت ، مرتبے اور وقار میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
وہ شخصیت ہیں، یونانی دانشور ، فلسفی ، ارسطو۔
  • ارسطو نے لکھا ہے کہ مردوں کی نسبت عورتوں کے دانت کم ہوتے ہیں۔ اسی لئے عورتیں کم عقل ہوتی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے دو شادیاں کیں، لیکن انہیں یہ خیال کبھی نہ آیا کہ اپنی بیگمات کے منہ کا معائنہ کر کے اپنے بیان کا تصدیق کر لیتے۔
  • ارسطو نے یہ بھی کہا ہے کہ حمل کا استقرار شمالی ہوا کے وقت ہو تو بچے زیادہ صحت مند ہوں گے۔
  • ارسطو کا بیان ہے کہ باؤلے کتے کے کاٹنے کی وجہ سے آدمی تو نہیں لیکن دوسرے جانور ضرور پاگل ہو جائیں گے (تاریخ علم الحیوان)
  •   ایک خاص قسم کی چوہیا کا کاٹنا گھوڑوں کے لئے خطرناک ہوتا ہے خاص طور پر جب چوہیا حاملہ ہو۔
  • جو ہاتھی بے خوابی کے مریض ہوں ان کے کندھوں پر نمک ، زیتون کے تیل اور گرم پانی سے مالش کرنی چاہئے۔
معلوم نہیں کہ یہ ارسطو کا خیال تھا یا انہوں نے اس کا مشاہدہ یا تجربہ کیا تھا۔ہمارے ملک پاکستان میں بھی دانشوروں کا حال کچھ اسی طرح کا ہے ۔ وہ مشاہدے اور تجربے کے بجائے اپنی پسند نا پسند کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔

Saturday 15 June 2013

زیارت / قائد اعظم ریزیڈنسی کی تباہی

زیارت میں قائد اعظم کی آخری رہائش گاہ کی شر پسندوں کے ہاتھوں تباہی کی خبر سن کر انتہائی دکھ ہوا۔ یہ کیسے آزادی پسند ہیں۔ جو اپنے ہی تاریخی ورثے کو تباہ کر کے خوش ہو ہوتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے،  یا ہو رہی ہے تو اس میں قائد اعظم محمد علی جناح کا کوئی قصور نہیں نہ ہی زیارت ریزیڈنسی نے کسی کوغائب کیا ہے۔
کہتے ہیں ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔ جو لوگ مہم جوئی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔ تو انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے اس گھناؤنے عمل کا ایک رد عمل ضرور ہو گا۔ اس کا نتیجہ بھی ضرور نکلے گا۔ لیکن نتیجہ ان لوگوں کے حق میں نہیں ہو گا جو قتل و غارت گری کا پیشہ اختیار کر چکے ہیں۔ ہم لوگ ان پاکستان دشمن افراد کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ جو پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ یہ لوگ یقیناً اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل کر تباہ و برباد ہوں گے۔