Thursday 13 March 2014

John F. Kennedy Quotes.

 Dear Friends, please read, enjoy and reflect.


1.    If a free society cannot help the many who are poor, it cannot save the few who are  rich. 
 
2.    Let us never negotiate out of fear. But let us never fear to negotiate. 

3.   There’s an old saying that victory has 100 fathers and defeat is an orphan.
 
4.   Mankind must put an end to war or war will put an end to mankind. 

5.   Those who make peaceful revolution impossible will make violent revolution inevitable.

Monday 10 March 2014

! نا اہل حکومتیں ،کرپٹ نوکر شاہی ،بے پروا سیاست دان

وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر محترمہ شرمیلا فاروقی نے تھر پارکر میں قحط سالی کی وجہ سے 200 سے زائد بچوں کی ہلاکت کی خبر پر اپنے بیان میں فرمایا کہ میڈیا نے غلط ا عدادو شمار دئیے ہیں . انکے بقول صرف 43 بچے ہلاک ہوۓ . وہ بھی بھوک کی وجہ سے نہیں بلکہ مختلف بیماریوں کے با عث . آپ مزید فرماتی ہیں کہ تھر میں یہ سب کچھ آج سے نہیں ہو رہا بلکہ تھر پارکر میں دو سال سے قحط سالی جاری ہے . اس سال سردی زیادہ پڑنے کی وجہ سے بچوں میں نمونیہ کی وبا پھوٹ پڑی . جس کی وجہ سے زیادہ اموات ہوئیں .
محترمہ کے بقول دو سال سے تھر کے لوگ مشکلات کا شکار ہیں . لیکن حکومت سندھ دو سال سے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے . کیا اسی کو نا اہلی اور بے پروائی نہیں کہتے ؟
حکومت سندھ . سندھ فیسٹیول پر کروڑوں روپے خرچ کر سکتی ہے . لیکن تھر کے بھوکے ،ننگے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست نہیں کر سکتی . ویسے بھی قائم علی شاہ صاحب کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر زرداری صاحب نے فائز کیا ہے . سندھ کے غریب عوام نے نہیں . اس لیے وہ عام غریب لوگوں کے لیے کیسے کوئی کار خیر سر انجام دے سکتے ہیں .
پاکستان میں حکومتوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے . کہ کسی بھی کوتاہی ،نا اہلی  ،بے پرواہی کا نزلہ چھوٹےاہل کاروں پر گرتا ہے . اس بار بھی سندھ میں ایسا ہی ہوا ہے . تھر پارکر میں چند سرکاری اہل کار معطل کیے گیے . جن کو کچھ عرصہ گزارنے کے بعد پھر بحال کر دیا جا ے گا . حکومت سندھ کوئی بھی ذمہ داری نہیں لے گی . کیونکہ یہ ان کا کام ہی نہیں . غریب عوام کے لیے صرف اور صرف خوشنما نعرے ہیں . وہ بھی عوام کا دل خوش کرنے کیلئے انتخابات سے پہلے لگاۓ جاتے ہیں . ویسےبھی حکمرانوں کے بچے تو ہر قسم کی آفت سے محفوظ ہیں . غریب عوام کے بچے اگر بھوک ،ننگ اور بیماری سے مرتے ہیں . تو اس میں حکمرانوں کا کیا قصور ہے ؟
پاکستان میں خود ساختہ ماہرین معاشیات اکثر غریبوں کو ہی مورود الزام ٹھراتے کہ غریب بچے زیادہ پیدا کرتے ہیں . اس لیے اگر ان میں سے چند زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں تو اس میں حکومتوں ، سیاستدانوں ، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا کیا قصور ہے .
مغرب کو بھی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر بہت تشویش ہے . نظام سرمایہ داری ابھی تک مسلمانوں کی آبادی پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے . شائد اسی لیے اکثر مسلم ممالک میں دہشت گردی اور مذہبی منافرت کو ہوا دی جا رہی ہے ؟
پاکستان ٹائمز کی دسمبر 2013 ، اور ایکسپریس ٹریبون کی جنوری 2014 ، کی رپورٹوں کے مطابق سندھ حکومت کے گوداموں سے تقریبآ 64000 ، ہزار گندم کی بوریاں چوری ہوئیں . ہزاروں بوریاں ایسی تھیں جن میں سے گندم نکال کر ان میں بھوسہ اور مٹی بھر دی گئی .آج تک نہ کسی کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی نہ کوئی پکڑا گیا . ایسا نظر آتا ہے . کہ حکومت کے گوداموں سے گندم تو چوری ہو سکتی ہے . لیکن غریبوں میں تقسیم نہیں کی جا سکتی !!!!!!!

Sunday 9 March 2014

! دجلہ کے کنارے

حضرت عمر  فاروق نے فرمایا تھا . اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمر سے باز پْرس ہو گی .....
اس مملکت خدا داد پاکستان میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں . والدین اپنے بچوں کو بھوک کے خوف سے بیچ رہے ہیں . مائیں اس خوف سے اپنے معصوم بچوں کو قتل کر رہی ہیں کہ ان کی اذیت ان کے لیے نا قابل برداشت ہو رہی ہے . جبکہ دوسری طرف حکمران طبقہ اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے ،بلٹ پروف گاڑیاں درآمد کر رہا ہے . اپنے محلوں کی دیواریں بلند سے بلند تر کرتا چلا جا رہا ہے . اسکے ساتھ ساتھ عوام کی خدمت کے نعرے بھی لگا ے جا رہے ہیں . لیکن عمل اسکے بر عکس ہے .
جتنے وسائل پاکستان میں مقتدر حلقوں اور ان کے رہائشی علاقوں کی حفاظت پر خرچ کیے جا رہے ہیں . ان وسائل سے یقینا لاکھوں غریب خاندانوں کے لیے ،دو وقت کی روٹی کا آسانی سے انتظام ہو سکتا ہے . لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کون کرے گا .

برٹرنڈ رسل برطانوی دانشور لکھتے ہیں ، جب تک حاکم  آسائش کی زندگی گزار رہے ہیں ، انھیں کیا پڑی ہے کہ اپنے غلاموں کی حالت سنوارنے کے متعلق سوچیں !!!!
پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے . حکمران آسائش کی زندگی گزار رہے ہیں . انھیں اور ان کے بچوں کو روٹی ،کپڑا  اور مکان کا کوئی مسلہ نہیں ہے . جب یہ ان کا مسلۂ ہی نہیں ، تو انھیں اس بارے میں فکر مند ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟
کسی بھی ملک یا معا شرے میں -سب سے پہلا سوال ،ضروریات زندگی کے بارے میں یہ ہے ، کہ افراد کی بنیادی ضرورتیں کیا ہیں  اور انکی فراہمی کا ذمہ دار کون ہے . ابن حزم اندلسی اس ضمن میں لکھتے ہیں کہ بنیادی ضرورتیں تین ہیں .
* روٹی ...
ایسی غذا جو مملکت کے عام افراد کی روز مرہ کی غذائی ضروریات کی  ضمانت فراہم کرے .
 کپڑا ...
ایسا لباس .جو گرمی ،سردی میں انسانی جسم کو تحفظ فراہم کرے .
* مکان ...
 ایسا مکان ( رہائش ) جو بارش ،موسم کے  سرد و گرم سے محفوظ رکھے  اور محل و قو ع کے لحاظ سے راہ گیروں کی نظروں سے محفوظ ہو .
علامہ زمحشری لکھتے ہیں . رہائش ،لباس ،روٹی اور پانی وہ بنیادی ضرورتیں ہیں . جن کے بغیر انسانی زندگی کی تکمیل نا ممکن ہے .
ان بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی ،کسی بھی مملکت کی اولین ذمہ داری ہے . اگر کوئی حکومت  اپنی ان ذمہ داریوں سے عہدہ برہ نہیں ہوتی . تو اسے حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں . عوام کا فرض ہے کہ ایسی حکومت کو اقتدار سے محروم کر دیں ، کیونکہ وہ اپنا بنیادی فرض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے . 
ابن حزم اندلسی لکھتے ہیں .کہ مملکت کا نادار طبقہ ،بھوک ،ننگ اور موت کا جب بھی شکار ہوا ہے . تو اس کا بنیادی سبب سرمایہ دار ٹولے کا وجود بنا ہے . کیونکہ یہ ٹولہ معیشت کے وسائل پر قابض ہو کر سب کا راستہ روک لیتا ہے .
وسائل معیشت ،میں سب سے بڑا اور اہم ذریعہ زمین ہے .زمین کسی بھی فرد کی ذاتی ملکیت نہیں ہو سکتی .
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ الله کریم نے رزق کے تمام اسباب  و  ذرایع  مثلا ، زمین ،ہوا ، پانی ، ہر قسم کی معدنیات ،موسموں کے تغیر   انسان کی پیدائش سے کروڑوں سال پہلے پیدا  فرما دئیے تھے
الله  کریم کا فرمان ہے .
الله وہی ہے . جس نے زمین اور اسکی ہر   پیداوار کو تم سب کی مشترکہ میراث قرار دیا ہے . البقرہ -29
جو چیز سب کی مشترکہ میراث ہو . اس پر غاصبانہ قبضہ جمانا ،قانون اور اخلاق کی نظروں میں جرم ہے . جو ایسا کرتا ہے . وہ لٹیرا ہے . لٹیروں سے لوٹا ہوا مال برآمد کرنا اور حق داروں کو ان کا حق پہنچانا ، حکومت کا فرض ہے . بشرطیکہ  حکومت خود ہی لٹیروں کی نہ ہو ....

Tuesday 4 March 2014

. مزار قائد کی بے حرمتی

زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے . جس میں ہم بحثیت قوم ذلت ، گمراہی ، بے شرمی ، لالچ  اور  ہوس  کی انتہائی  گہرایوں  میں نہ  گر  چکے ہوں .  رشوت ، چور بازاری ، قومی  خزانے کی لوٹ مار ، اختیارات  کا ناجائز  استعمال ،  کھانے پینے کی اشیا  اور  ادویات  میں ملاوٹ - جیسے جرائم ہمارا  روزمرہ  کا معمول بن چکا ہے .  ایسا  نظر  آتا  ہے . کہ  ہمیں اپنے انجام کی کوئی پروہ  نہیں ! جبکہ   دوسری  طرف ،ہماری حکومت کی ترجیحات  ، صرف اور صرف  اپنے اقتدار کا دوام اور کم سے کم  عرصے میں زیادہ  سے زیادہ  مال  جمع  کرنا  ہے .

یہ تمام معاملات  تکلیف دے ہیں . لیکن جس خبر نے انتہاہی  دکھ  دیا وہ  مزار  قائد  کی  بے  حرمتی  تھی .  کیا کوئی قوم اتنا بھی گر سکتی ہے .  کہ جس جگہ وہ  شخصیت  دفن ہے . جس نے ہمیں آزادی جیسی  نعمت سے سرفراز کیا ، انگریز کی  غلامی سے نجات دلائی ، اس کے مزار کو  اپنی ہوس  رانی کے لیے استعمال  کرے .  تف ہے ان لوگوں پر  جنھیں اپنے منہ  پر کالک ملنے کے لیے اور کوئی جگہ نہ ملی  اور مزار کی انتظامیہ پر  جو حرام کمانے کے لیے ، مزار قائد  کو  کرایے  پر دینے کے دھندے میں ملوث ہیں .  مقتدر حلقوں سے یہ کہنا   کہ ان   لوگوں کو  قرار واقعی سزا دی  جاۓ ، ایسا ہی ہے . جیسے  گدھوں  سے یہ توقع  رکھنا کو وہ  مردار  کھانا چھوڑ  دیں .

محترم اقرار .ان کی ٹیم اور  اے ، آر ، واے  کی  انتظامیہ تحسین  کی مستحق ہے . جو اپنی جان مشکل میں ڈال کر  معاشرے کے ناسوروں کو بے نقاب کر رہے ہیں . الله کریم ان سب کو اپنی حفظ و  امان میں رکھے ..........