Sunday 13 May 2018

ڈان لیکس 2

کل ملتان میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرنے سے پہلے سرل المیڈا  کو انٹرویو دیتے ہوۓ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ   پاکستان میں " عسکریت پسند تنظیمیں موجود ہیں "  آپ انہیں نان اسٹیٹ ایکٹرز کہہ سکتے ہیں . کیا ہمیں اجازت دینی چاہئیے کہ وہ سرحد پار ممبئی جا کر 150،   لوگوں کو قتل کریں ؟   انھوں نے سوال کیا کہ مجھے بتائیں کہ ہم اب تک ان کا پاکستان میں ٹرائل کیوں نہ کر سکے ؟   
ہم نواز شریف صاحب سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جب آپ پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو آپ نے ان عسکریت پسندوں کے خلاف کیا کاروائی کی ؟   آپ نے راولپنڈی کی انٹی ٹیرر عدالت میں چلنے والے کیس کو آگے کیوں نہ بڑھایا ؟   کس نے آپ کا ہاتھ روکا ؟ 
 کیا نواز شریف صاحب نے کبھی یہ سوال افغان حکومت سے بھی کیا کہ کیسے انھوں نے ان دہشت گردوں کو اجازت دی کہ وہ پشاور آ کر ہمارے 150، سے زائد معصوم بچوں اور اساتذہ کو شہید کریں .  کیا انھوں نے بھارت سے یہ سوال کیا کہ وہ پاکستان ، خاص طور پر بلوچستان میں دہشت گردی کیوں کروا رہا ہے .  کلبوشن یادیو بلوچستان سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا . کیا انھوں نے وزیر اعظم پاکستان ہوتے ہوۓ کبھی اس کا نام لیا ؟   اگر انھوں نے کبھی کسی بھی فورم پر اس کا نام نہیں لیا تو کیوں ؟
پاکستان میں ممبئی حملہ کیس کا ٹرائل اس لیے نہیں ہو سکا کیونکہ بھارت نے پاکستانی اداروں کے ساتھ کسی بھی قسم کی معلومات کا تبادلہ کرنے سے انکار کیا . دنیا کی کون سی عدالت بغیر ثبوت کوئی مقدمہ چلا کر کسی کو سزا دے سکتی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ تا حیات نا اہل نواز شریف   امریکہ اور یورپ کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان میں ایک وہی شخص ہیں جو فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے سکتے ہیں . اس لیے انھیں بچایا جاۓ . اس مقصد کیلئے انھوں نے امریکہ اور یورپ میں بڑی لابنگ فرموں کی خدمات حاصل کی ہیں . مشاہد حسین سید کو اپنے ساتھ ملانے کا مقصد بھی یہی ہے . کہ ان کے ذریعے عالمی میڈیا کو اپنا بیانیہ پھیلانے کیلئے استعمال کیا جاۓ ....
اپنی جان و مال بچانے کیلئے نواز شریف پاکستان کی سالمیت کو داؤ پر لگا رہے ہیں . ریاست پاکستان پر الزام لگا کر انھوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے . اس پاگل پن کی قیمت انھیں ضرور چکانی پڑے گی ؟؟؟؟؟

!!!!ایک لکیر ، آلو گوشت اور نظریاتی

 ساؤتھ  اشین فری میڈیا ایسوسی ایشن کی طرف سے منعقد کی  جانے والے ایک تقریب  جس کا عنوان تھا   " مل کر لکھیں نئی کہانی "  سے خطاب کرتے ہوۓ ،،   نواز شریف نے کہا تھا کہ ہماری ثقافت اور  ثقافتی ورثہ ایک ہے . ہماری زبان ایک ہے . بس یہ ایک باڈر درمیان میں آ گیا ہے .  ہماری کھانے پینے کی عادات بھی ایک ہیں .  مجھے بھی آلو گوشت پسند ہے . آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں ؟  یہ  تقریب 2011،   میں لاہور میں  منعقدہوئی تھی . 
مجھے لگتا ہے میاں صاحب اس وقت تک نظریاتی ہو چکے تھے . لیکن انھیں خود پتا نہیں تھا کہ وہ نظریاتی ہو کر نظریہ پاکستان   " دو قومی نظریہ " بھی اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں . ہمیں میاں صاحب سے نہ اس وقت کوئی گلہ تھا ،  نہ اب ہے . کیونکہ جس شخص نے ساری زندگی کوئی کتاب نہ پڑھی ہو . ڈھنگ کی تعلیم نہ حاصل کی ہو . جسے تاریخ کا کوئی ادراک نہ ہو . جسے  دو قومی نظریے ،  جو پاکستان کے قیام کی بنیاد تھا اور ہے . کا علم نہ ہو .  جسے زمینی حقائق کا علم نہ ہو . جسے پاکستان کے قیام کے وقت دی گئی لاکھوں قربانیوں کا کوئی علم نہ ہو . جسے بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا کچھ پتا نہ ہو .  اس سے اسی طرح کی لا یعنی گفتگو کی  توقع ہو  سکتی ہے . 
میاں صاحب کی معصومیت پر قربان جائیے  کہ ہندوں اور سکھوں کو بھی آلو گوشت کھلا رہے تھے . اگر ہماری ثقافت اور ثقافتی ورثہ ایک ہے . زبان ایک ہے . سب آلو گوشت کے رسیا ہیں . تو پھر واقعی ایک علیحدہ ملک کی ضرورت نہ تھی . 
میاں صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ   اگر پاکستان نہ بنتا تو میاں صاحب اس وقت کسی ہندو بنیے کی جوتیاں صاف کر رہے ہوتے . نہ وہ وزارت عظمیٰ   کے مزے لوٹ سکتے اور نہ راۓ ونڈ محل اور نہ چھیالیس فیکٹریوں   کے مالک  ہوتے ؟؟؟؟؟؟     

Monday 7 May 2018

! ایک اور نوٹس

آج وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کے بعد پنجاب کے وزیر آعلی نے واقعہ کا ایک بار پھر نوٹس لے لیا . ہمارے خادم اعلیٰ نوٹس لینے کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ خود کفیل ہیں . صوبے میں کوئی چھوٹا ، بڑا واقعہ ایسا نہیں . جس کا جناب شہباز شریف نوٹس نہ لیتے ہوں . یہ بھی حقیقت ہے کہ جناب کے نوٹس سے پنجاب میں کوئی مثبت تبدیلی پچھلے 10،  سال میں نہیں آ سکی ....
بڑے میاں صاحب سپریم کورٹ سے نا اہل قرار پانے کے بعد ،   ووٹ کی عزت اور حرمت کی بات کرتے ہیں . کاش  وہ جب وزیر اعظم پاکستان تھے اس وقت خود ووٹ کو عزت دیتے ؟   جمہوریت میں ووٹ کی عزت اس وقت ہوتی ہے جب ادارے مضبوط ہوتے ہیں .  اگر ملک میں ادارے مضبوط اور خود مختار ہوتے تو آج کسی کو بھی نوٹس لینے کی ضرورت نہ پڑتی ؟   
وزیر اعظم پاکستان کو کسی ادارے یا فرد کو ہدایات نہ دینی پڑتیں . وزیر داخلہ کا علاج نارووال ہی میں ہو جاتا . انھیں ہیلی کاپٹر پر لاہور منتقل نہ کرنا پڑتا .... 
ہمارے حکمران سمجھتے ہیں کہ اگر ادارے مضبوط ہوۓ تو انکی اہمیت کم ہو جاۓ گی.   صرف خبروں میں (ان ) رہنے کیلئے  وہ شعبدہ بازیاں کرتے ہیں . کاش ہمارے حکمران یہ سمجھ سکیں کہ عوام کے مسائل حل کر کے ہی وہ عوام کے دلوں میں گھر کر سکتے ہیں ....  اخباروں اور ٹی -وی پر اشتہارات اور ٹکرز سے قوم کا پیسہ تو برباد ہو سکتا ہے .  عوام کی نظروں میں مقام نہیں بنایا جا سکتا !!!! 

Saturday 5 May 2018

جہالت کا کوئی علاج نہیں ؟

میاں نا اہل شریف جب سے نظریاتی ہوۓ ہیں . لگتا ہے حواس کھو بیٹھے ہیں . تاریخ سے انھیں پہلے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ تھی .. نا اہل ہونے کے بعد وہ ملکی تاریخ مسخ کرنے کے مشن پر دوڑتے نظر آتے ہیں . میاں صاحب کے چاہنے والے بھی آج تک یہ دعویٰ نہیں کر سکے کہ انھوں نے کبھی میاں صاحب کو کتاب پڑھتے دیکھا ہو . اور نہ آج تک میاں صاحب نے اپنی کسی تقریر یا میڈیا ٹاک میں کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے .
سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دئیے  جانے   کے  بعد وہ کئی مرتبہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور شیخ مجیب الرحمن کی معصومیت کا تذکرہ  کر چکے ہیں . جناب کا بیانیہ یہ ہے کہ شیخ صاحب کوئی برے آدمی نہ تھے . انھیں پاکستان سے   علیحدگی پر مجبور کیا گیا ؟    
یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ تین مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم رہنے والا شخص تاریخ سے کتنا نا بلد ہے ؟    شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی  حسینہ واجد نے 7 مارچ 2010،   کو ڈھاکہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوۓ یہ اقرار کیا تھا کہ ان کے والد نے بھارت سے مل کر پاکستان کو دو لخت 
کرنے کا منصوبہ بنایا تھا . وہ ان میٹنگز کی چشم دید گواہ ہیں جو انکے والد اور بھارتی انٹیلی جنس   کے افسران کے درمیان لندن میں ہوتی رہیں . اس تقریب کی تمام روداد ڈیلی میل لندن میں شایع ہوئی ...
ڈاکٹر معید پیرزادہ کا 16دسمبر 2017،   کو گلوبل ولیج سپیس میں شایع ہونے والا مضمون بھی جناب   نواز شریف کی نظروں سے نہیں گزرا ہو گا . اس تحقیقی مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ شیخ مجیب 1962،   سے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے رابطے میں تھا . شیخ مجیب نے   پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط لکھا تھا کہ اگر بھارت ان کا ساتھ دے تو وہ یکم فروری 1963،   یا  یکم مارچ   1963،   کو لندن سے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر سکتے ہیں . 
مجیب الرحمن کے خلاف اگرتھلا سازش کیس بھی ایک حقیقت تھا . مجیب نے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے بھارتی ریاست تری پورا کے وزیر ا علی سچن سنگھ سے اگرتھلا میں ملاقات کی تھی . مجیب چاہتا تھا کہ جلد از جلد بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا جاۓ .. لیکن بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے مجیب کو پیغام دیا کہ اس وقت بین الاقوامی حالات اس کام کیلئے سازگار نہیں . اگر مجیب چاہتا ہے کہ بھارت اس معاملے میں اسکی مدد کرے تو اسے مناسب وقت کا انتظار کرنا ہو گا .  
1971،   میں وہ مناسب وقت آ گیا .  جب شیخ مجیب نے   بھارت کی مدد سے پاکستان کو دو لخت کر دیا . میاں نواز شریف   شیخ مجیب کا حوالہ ضرور دیں . لیکن جناب اس کے انجام کو بھی یاد رکھیں .
بنگلہ دیش کے قیام کے صرف ساڑھے تین سال بعد ہی بنگالیوں کے خود ساختہ باپ کو اس کے اپنے محافظوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا !!!! 
شائد تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے . یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت کم لوگ تاریخ سے سبق سیکھتے ہیں ؟؟؟؟      اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جہالت لا علاج ہے !!!!