Sunday 13 May 2018

!!!!ایک لکیر ، آلو گوشت اور نظریاتی

 ساؤتھ  اشین فری میڈیا ایسوسی ایشن کی طرف سے منعقد کی  جانے والے ایک تقریب  جس کا عنوان تھا   " مل کر لکھیں نئی کہانی "  سے خطاب کرتے ہوۓ ،،   نواز شریف نے کہا تھا کہ ہماری ثقافت اور  ثقافتی ورثہ ایک ہے . ہماری زبان ایک ہے . بس یہ ایک باڈر درمیان میں آ گیا ہے .  ہماری کھانے پینے کی عادات بھی ایک ہیں .  مجھے بھی آلو گوشت پسند ہے . آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں ؟  یہ  تقریب 2011،   میں لاہور میں  منعقدہوئی تھی . 
مجھے لگتا ہے میاں صاحب اس وقت تک نظریاتی ہو چکے تھے . لیکن انھیں خود پتا نہیں تھا کہ وہ نظریاتی ہو کر نظریہ پاکستان   " دو قومی نظریہ " بھی اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں . ہمیں میاں صاحب سے نہ اس وقت کوئی گلہ تھا ،  نہ اب ہے . کیونکہ جس شخص نے ساری زندگی کوئی کتاب نہ پڑھی ہو . ڈھنگ کی تعلیم نہ حاصل کی ہو . جسے تاریخ کا کوئی ادراک نہ ہو . جسے  دو قومی نظریے ،  جو پاکستان کے قیام کی بنیاد تھا اور ہے . کا علم نہ ہو .  جسے زمینی حقائق کا علم نہ ہو . جسے پاکستان کے قیام کے وقت دی گئی لاکھوں قربانیوں کا کوئی علم نہ ہو . جسے بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا کچھ پتا نہ ہو .  اس سے اسی طرح کی لا یعنی گفتگو کی  توقع ہو  سکتی ہے . 
میاں صاحب کی معصومیت پر قربان جائیے  کہ ہندوں اور سکھوں کو بھی آلو گوشت کھلا رہے تھے . اگر ہماری ثقافت اور ثقافتی ورثہ ایک ہے . زبان ایک ہے . سب آلو گوشت کے رسیا ہیں . تو پھر واقعی ایک علیحدہ ملک کی ضرورت نہ تھی . 
میاں صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ   اگر پاکستان نہ بنتا تو میاں صاحب اس وقت کسی ہندو بنیے کی جوتیاں صاف کر رہے ہوتے . نہ وہ وزارت عظمیٰ   کے مزے لوٹ سکتے اور نہ راۓ ونڈ محل اور نہ چھیالیس فیکٹریوں   کے مالک  ہوتے ؟؟؟؟؟؟     

No comments:

Post a Comment