Saturday 6 January 2018

! الفاظ کی حرمت

مشہور چینی فلاسفرکنفیوشس سے کسی نے پوچھا کہ اگر انھیں اقتدار مل جاۓ . تو سب سے پہلا کام وہ کونسا کریں گے .... انھوں نے جواب دیا کہ ( I will rectify the language) اردو میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زبان کی درستگی کروں گا .زبان (language) کی تصیح کروں گا ... ہماری زبان میں کوئی بھی لفظ (rectify) کا مفہوم مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا ؟
 کنفیوشس کا یہ کہنا (Rectify the language) ایک ایسا با معنی اور لطیف جملہ ہے .. جس پر ہمیں اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں بھی غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے . جیسے جیسے معاشرے زوال پذیر ہوتے ہیں . زبان بھی زوال پذیر ہوتی جاتی ہے ...الفاظ بجاۓ کسی بات یا کام کی وضاعت کرنے کے ،   کچھ بلکہ بہت کچھ چھپانے کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں ...عام طور پر الفاظ کی ہیرا پھیری طاقتور ممالک اور مقتدر حلقوں کی طرف سے کی جاتی ہے . (خاص طور پر سیاسی لیڈروں کی طرف سے )
مثال کے طور پر جب عراق پر امریکہ نے حملہ کرنا تھا تو کہا گیا کہ ہم عراقی قوم کو صدام حسین کی ڈکٹیٹر شپ سے آزاد کرانے کیلئے ایسا کر رہے ہیں ....پھر دنیا نے دیکھا کہ آزاد کراتے کراتے پورے عراق کو کھنڈر بنا دیا گیا .
یہی کچھ لیبیا کے ساتھ ہوا ..قذافی سے تو جان چھوٹ گئی . لیکن ملک تباہ ہو گیا اور تین حصوں میں بٹ گیا ..شام میں بھی آزادی کی تحریک (امریکہ اور اسکےعرب  اتحادیوں ) کی سر پرستی میں جاری ہے .. اقوام متحدہ کے اعدادوشمار  کے مطابق اب تک 4 لاکھ سے زیادہ شامی شہری مارے جا چکے ہیں . 61 لاکھ سے زائد اپنا ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں دھکے کھا رہے ہیں ....اس تباہی و بربادی کے با وجود امریکی بضد ہیں کہ وہ   شامیوں کو آزاد کرائیں گے ... اور وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق بحال کریں گے ؟؟؟؟؟
 ڈونلڈ ٹرمپ اب کہتے ہیں کہ  ایرانیوں کو بھی ملاؤں سے آزاد کرائیں گے .... اس مقصد کیلئے  امریکہ ،  اسرائیل اور سعودی عرب نے مل کر کوششیں شروع کر دی ہیں ....اگر عراق ،   لیبیا   اور شام   کے حالات دیکھ کر بھی ایرانی عوام 
آزادی ،   جمہوریت اور انسانی حقوق کے امریکی دعووں پر یقین کرنا چاہتے ہیں . تو انکی مرضی ہے !!!!
اب آتے ہیں اپنی  مملکت خدا داد پاکستان کی طرف !!!!   یہاں بھی خوبصورت الفاظ کے پیچھے مکروہ جذبے چھپے ہوتے ہیں .. پچھلے 10سالوں میں ہمارے سیاستدانوں ،   دانشوروں اور صحافیوں نے ہر اس لفظ کی حرمت کو پامال  کر دیا ہے.  جو کبھی عوام  کے دلوں کی آواز تھا .... مثال کے طور پر   جمہوریت !!!! ہمارے سیاسی لیڈروں کو جمہوریت اس وقت یاد آتی ہے . جب وہ اقتدار  سے باہر ہوتے ہیں .جدید پاکستانی لغت میں جمہوریت کا مطلب ، ذاتی اقتدار ہے .
آج کل دوسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ ،،، عدل ہے .... ہمارے سیاستدا ن  عدل بھی صرف اپنے لیے مانگتے ہیں . جیسے آج کل سابق وزیر اعظم تحریک عدل شروع کرنا چاہتے ہیں . وہ بھی صرف اس لیے کے انکے اپنے مفادات پر زد پڑی ہے ... جب جناب وزیر اعظم پاکستان تھے . اس وقت انھیں عدل و انصاف کی وگرگوں صورت حال کا کوئی اندازہ نہ تھا ...اب کہتے ہیں کہ غریب عوام کو انصاف کے حصول کیلئے بیس ،  بیس  سال لگ جاتے ہیں .
کوئی قلم بیچ دانشور اور لفافہ صحافی ان سے نہیں پوچھتا کہ حضور جب آپ مسند اقتدار پر فائز تھے . آپ کو اس وقت   غریبوں کا کوئی خیال کیوں نہ آیا ؟؟؟؟   کیا غریبوں کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا .. جب آپ کو سپریم کورٹ نے   نا اہل قرار دیا !!!! 
اپنی نا اہلی کے بعد سے میاں صاحب تواتر سے ووٹ کی حرمت اور تقدس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں ..اسکو بھی ہم دوغلا پن کہہ سکتے ہیں . اس وقت انھیں ووٹ کی حرمت اور تقدس کا کوئی خیال نہیں آیا . جب وہ   جونیجو صاحب ، محترمہ بے نظیر  بھٹو    اور 2008،   کے انتخابات کے بعد  یوسف رضا گیلانی ، حکومتوں کے خلاف  ریشہ دوانیاں کرتے رہے ؟؟؟؟   پاکستان کے عوام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب میاں نواز شریف (ن ) لیگ اور آصف علی زرداری (پیپلز پارٹی ) جمہوریت کہیں تو اسکا مطلب ہو گا ... ان کا اقتدار ..............  جب ووٹ کی حرمت اور تقدس  کہیں تو اسکا مطلب ہو گا ....صرف وہ ووٹ جو انکے حق میں پڑیں .... جب عدل اور انصاف کہیں تو اسکا مطلب ہو گا .... کوئی ہمیں نہیں پوچھ سکتا .... قومی ترقی کہیں تو اسکا مطلب ہو گا ....انکی ذاتی ترقی .... فارن ریزرو سے مراد ہو گی .... انکی اپنی بیرون ملک دولت !!!!  بے روزگاری کے خاتمے سے مراد ہو گی  کہ انکے اپنے خاندان میں کوئی بھی بے روزگار نہیں .... 
   پاکستان کے عوام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری باتوں پر غور کریں . تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے سیاستدان وہ کرتے نہیں . جو کہہ کر اقتدار میں آتے ہیں .... اگر ہم کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں؟   تو 
Randall Terry،   کی ایک quote،   کو حسب حال بناتے ہوۓ . آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ....
Fool us once, shame on you, fool us twice, shame on us!

No comments:

Post a Comment