Saturday 25 February 2017

واقعہ اور استعفی کا مطالبہ ؟

وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ جب بھی ملک میں کوئی واقعہ ہوتا ہے ، استعفی کا مطالبہ آ جاتا ہے .... جناب وزیر داخلہ کی حیرانی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ پاکستان میں کسی وزیر ،مشیر یا کسی اعلی عہدہ دار کا ، کسی حادثے کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفی دینے کا رواج نہیں ہے .... اس کی ایک وجہ تو شائد یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ذمہ دار ہی نہیں سمجتھے . ان کا کام صرف عہدے اور مراعات سے لطف اندوز ہونا ہوتا ہے .. مثال کے طور پر لاہور پولیس کے 2700، سے زائد اہلکار شریف خاندان کی حفاظت پر مامور ہیں .... اس کے علاوہ لاہور پولیس کے 6,000, سے زائد اہلکار VVIP اور VIP، کی سیکورٹی پر مامور ہیں .... عوام کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے . یہ سوال نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے ؟؟؟؟
دنیا کے اکثر ملکوں میں کسی حادثے کی صورت میں متعلقہ محکمے کے وزیر یا اعلی عہدہ دار کا استعفی ایک عام سی بات ہے . 27 ،اپریل 2014 , کو ساؤتھ کوریا کے وزیر اعظم نے ایک کشتی حادثے کی وجہ سے استعفی دے دیا .. اس حادثے میں 300 , کے قریب افراد ڈوب گے تھے ... نہ ڈوبنے والی کشتی وزیر اعظم صاحب کی ملکیت تھی اور نہ ہی وہ اس حادثے کے ذمہ دار تھے ... ان پر الزام یہ تھا کہ انکی حکومت نے ریسکیو آپریشن پوری تندہی سے نہیں کیا جس کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں نہ بچائی جا سکیں ..... وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ مرنے والوں کے لواقین کی آہیں اور سسکیاں انھیں رات کو سونے نہیں دیتی اس لیے وہ اپنے عہدے سے استعفی دیتے ہیں !!! 
اسپین ، ارجنٹاین، ایران اور بھارت میں ٹرین کے حادثات کے بعد ریلوے کے وزیروں اور ٹرانسپورٹ کے وزیروں نے استعفے دئیے ہیں . جبکہ ہمارے ملک میں ایسے حادثات کے بعد چھوٹے اور معمولی درجے کے اہلکاروں کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے ... یا وزیر صاحب ان حادثات میں مرنے والوں کو ہی قصور وار ٹہراتے ہیں...
ہمارے ملک میں صاحب اقتدار نہ تو احساس ذمہ داری رکھتے ہیں اور نہ ہی انکی کوئی عزت نفس ہے . اور نہ ہی معصوم لوگوں کی آہیں اور سسکیاں انکے ضمیر پر کوئی بوجھ ڈالتی ہیں !!!!

No comments:

Post a Comment