Wednesday 21 February 2024

ہمٹی- ڈمٹی

انگریزی کی ایک نرسری نظم ہے .ہمٹی- ڈمٹی .
اس  نظم کی ابتدا کیسے ہوئی .یہ کس کے بارے میں ہے .ہمٹی- ڈمٹی کون تھے .اسکے بارے میں مختلف کہانیاں مشہور ہیں .کہا جاتا ہے کہ یہ ایک پہیلی ہے .جو تمام دنیا میں زبان زد عام ہے .اس نظم کا پہلا تحریری ثبوت اٹھارویں صدی کے آخر ی حصہ میں ملتا ہے .لیکن ابھی تک اسکی اصل غیر واضح ہے اور اسکے اصل معنی کے بارے میں کئی نظریات پیش کیے جاتے ہیں .
کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مشروب کا نام ہے .جو برانڈی اور بیئر کو ابال کر بنائی جاتی تھی .
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اٹھارویں صدی میں کسی چھوٹے قد کے اناڑی اور نکمے کیلئے بھی ہمٹی- ڈمٹی کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا .
ایک نظریہ یہ بھی ہے کے اصلی  ہمٹی- ڈمٹی -انگلینڈ کا   بادشاہ  -رچرڈ تھری (III)تھا .کیونکہ وہ کبڑا تھا .اور ایک بڑی فوج ہونے کے باوجود اسے 1485, میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ....اسلئیے اسے ہمٹی- ڈمٹی کہا جاتا تھا .
ایک اور نظریہ یہ بھی ہے کہ ہمٹی- ڈمٹی -ایک بہت بڑی توپ کا نام تھا .جو کولچسٹرقلعہ  کی دیوار پر نصب تھی. 1648,میں ایک لڑائی کے دوران قلعہ کی  دیوار جس پر توپ نصب تھی وہ گر گئی .اسکے ساتھ ہی توپ بھی گر کر ٹوٹ گئی .اور بادشاہ کی تمام فوج اور تمام وسائل بھی اسکو دوبارہ اپنی اصل حالت میں نہ لا سکے .
اوپر بیان کردہ تمام نظریات اس پہیلی   میں  چھپے اصل معنی بیان کرنے سے قاصر ہیں .
اصل معاملہ یہ تھا کہ بادشاہ سلامت کی غیر شادی شدہ بیٹی کے ایک شخص کے ساتھ تعلقات تھے .عشق میں وہ اپنی عزت گنوا بیٹھی . یہ بات جب زبان زد عام ہوئی .تو لوگ براۓ راست تو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے .انھوں نے اس پہیلی کا سہارا لیا .
اس طرح ہمٹی- ڈمٹی -پہیلی وجود میں آئی .
یہ قرین قیاس بھی ہے .کیونکہ توپ کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہو .دوبارہ بنائی جا سکتی ہے .اور اگر ایک بار دیوار پر نصب کی  جا سکتی ہے تو دوسری مرتبہ بھی نصب ہو سکتی ہے .لیکن کھوئی ہوئی عزت دوبارہ حاصل نہیں کی جا سکتی .
پاکستان کے موجودہ حالات بھی کچھ ایسی ہی تصویر پیش کر رہے ہیں .مقتدر حلقوں اور اداروں کو سوچنا ہو گا کہ وہ اپنی تمام تر طاقت اور ریاستی جبر کے با وجود عوام کی امنگوں کے سامنے بند نہیں باندھ سکے .اور نہ وہ عوام کی آواز کو دبا سکیں گے .اسلیے بہتر یہی ہے کہ عوامی شعور کا ساتھ دیں .بیرونی آقاؤں اور اپنی جھوٹی آنا کا نہیں !!!!
شائد اس طرح آپ اپنی کھوئی ہوئی عزت بحال کر سکیں ؟

No comments:

Post a Comment