Friday, 31 May 2013
مولانا، مولا، قرآن اور ہمارے مذہبی رہنما
قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے۔
کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بجز اس کے جو خدا نے ہمارے لیے لکھ دی ہو وہی ہمارا (مولانا ) کارساز ہے۔ اور مومنوں کو خدا ہی کا بھروسہ رکھنا چاہیئے 9.51
اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا(مولانا) مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما 2.286 (آخری حصہ )
یہ تمہارے مددگار نہیں ہیں) بلکہ خدا تمہارا (مولاکم) مددگار ہے اور وہ سب سے بہتر مددگار ہے 3.150
اور اگر روگردانی کریں تو جان رکھو کہ خدا تمہارا (مولاکم ) حمایتی ہے۔ (اور) وہ خوب حمایتی اور خوب مددگار ہے 8.40
وہاں ہر شخص (اپنے اعمال کی) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا اور وہ اپنے سچے(مولاھم) مالک کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ وہ بہتان باندھا کرتے تھے سب ان سے جاتا رہے گا- 10.30
وہاں ہر شخص (اپنے اعمال کی) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا اور وہ اپنے سچے(مولاھم) مالک کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ وہ بہتان باندھا کرتے تھے سب ان سے جاتا رہے گا- 10.30
برصغیر میں لفظ مولانا عام طور پر مذہبی رہنماؤں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہبی رہنماؤں کی اکثریت اپنے نام سے پہلے مولانا لکھتے ہیں۔ پاکستان میں بھی عام لوگوں کی اکثریت سوچے سمجھے بغیر اپنے جیسے لوگوں کو مولانا کہتی ہے۔ اوپر بیان کردہ قرآن کریم کی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارا مولا، مولانا، اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ اور نہ کوئی ہو سکتا ہے۔
مولا اورمولانا کے معنی ہیں: آقا ، کارساز، مالک، مددگار، حمایتی
ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارا آقا، کارساز ، مالک، مددگاراور حمایتی اللہ کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ ہماری اپنےتمام مسلمان بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ کسی بھی انسان کے لئے کبھی بھی مولانا اور مولا کا لفظ استعمال نہ کریں۔
Wednesday, 29 May 2013
سبسڈی سبسڈی کا کھیل
چوبیس(24) مئی 2013 ڈیلی ٹائمز میں نگران وزیر پانی و بجلی کا ایک بیان چھپا ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ پاکستا ن میں سالانہ 210 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے ۔
سب سے زیادہ بجلی کراچی میں چوری ہوتی ہے ،حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں چوری ہونے والی بجلی کا 40 فیصد غریب آبادیوں میں رہنے والےچوری کرتے ہیں ، کنڈے لگا کر۔ جبکہ باقی کا رخا نہ دار، آئس فیکڑیاں، پلاسٹک کا سامان بنانے والے،جوتے بنانے والے چوری کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ پرائیوٹ سکول چلانے والے بھی اس کار خیر میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔
وزارت پانی و بجلی کے مطابق ،لائف لائن کسٹمرز جو 100 سے کم یونٹ استمال کرنے ہیں انھیں 5 روپے فی یونٹ سبسڈی دی جاتی ہے۔
جب بھی میڈیا پر سبسڈی کے بارے میں بحث کی جاتی ہے ۔ ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ فرنس آئیل اور ڈیزل سے پیدا کی جانے والی بجلی واپڈا کو 16 روپے فی یونٹ میں پڑتی ہے جبکہ عوام کو 8 روپے فی یونٹ فر وخت کی جاتی ہے ۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کتنی بجلی فرنس آئیل اور ڈیزل سے پیدا کی جاتی ہے کتنی گیس سے پیدا کی جا تی ہے اور کتنی ہائیڈل یعنی پانی سے پیدا کی جاتی ہے ۔ اگر فرنس آئیل ، ڈیزل سے پیدا کی جانے والی بجلی فی یونٹ 16 روپے میں پڑتی ہے ، تو پانی سے پیدا کی جانے والی کتنے روپے فی یونٹ پڑتی ہے ۔نیوکلئیر پاور سے پیدا کی جانے والی بجلی کتنے روپے فی یونٹ پڑتی ہے ۔اس وقت ملک میں 6500 میگا واٹ ہائیڈل سے پیدا کی جا رہی ہے۔ نیوکلرئت سے 450 میگا واٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے ۔ جبکہ باقی 5 ہزار میگاواٹ کے قریب گیس ،فرنس آئیل اور ڈیزل سے پیدا کی جا رہی ہے ۔
ء2013 میں حکومت پاکستا ن نے واپڈا اور پیپکو کے لئے 134.97 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا ہے ۔اگر باغور جا ئزہ لیا جائے ,تو یہ تما م الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے ۔عوام کو سچ کبھی نہیں بتایا جاتا ۔حکومت کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں سالانہ 210ارب روپے کی بجلی چوری ہو تی ہے ، جبکہ حکومت 130ارب یا 140ارب روپے پر سبسڈی دیتی ہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت بجلی پر سبسڈی کیوں دیتی ہے ۔اگر حکومت بجلی چوری پر قابو پائے تو اسے سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور حکومت کی آمدنی میں 50 سے60 ارب روپے کا اضافہ بھی ہو جائے گا۔
جو ماہرین اقتصادیات اور سیاسی رہنما ، ٹی وی پر آ کر سبسڈی کی دہائی دیتے ہیں ،آج تک ان کے منہ سے بجلی چوری کے بارے میں کوئی لفظ نہیں سنا گیا۔ کیا بجلی چوری روکنا حکومت کے فرائض میں شامل نہیں ۔
پاکستان کے عوام سے ہماری گزارش ہے ۔وہ بجلی چوری کے بارے میں آواز اٹھائیں ۔اپنے نمائندوں کو مجبور کریں کہ وہ اس کے بارے میں قانون سازی کریں اور اس کے بارے میں واضع لائحہ عمل اختیار کریں ۔
سبسڈی سبسڈی کا راگ الاپنے کے بجائے اصل کا م کی طرف توجہ دیں ۔وہ ہے بجلی چوری کی مکمل روک تھام !!
سب سے زیادہ بجلی کراچی میں چوری ہوتی ہے ،حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں چوری ہونے والی بجلی کا 40 فیصد غریب آبادیوں میں رہنے والےچوری کرتے ہیں ، کنڈے لگا کر۔ جبکہ باقی کا رخا نہ دار، آئس فیکڑیاں، پلاسٹک کا سامان بنانے والے،جوتے بنانے والے چوری کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ پرائیوٹ سکول چلانے والے بھی اس کار خیر میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔
وزارت پانی و بجلی کے مطابق ،لائف لائن کسٹمرز جو 100 سے کم یونٹ استمال کرنے ہیں انھیں 5 روپے فی یونٹ سبسڈی دی جاتی ہے۔
جب بھی میڈیا پر سبسڈی کے بارے میں بحث کی جاتی ہے ۔ ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ فرنس آئیل اور ڈیزل سے پیدا کی جانے والی بجلی واپڈا کو 16 روپے فی یونٹ میں پڑتی ہے جبکہ عوام کو 8 روپے فی یونٹ فر وخت کی جاتی ہے ۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کتنی بجلی فرنس آئیل اور ڈیزل سے پیدا کی جاتی ہے کتنی گیس سے پیدا کی جا تی ہے اور کتنی ہائیڈل یعنی پانی سے پیدا کی جاتی ہے ۔ اگر فرنس آئیل ، ڈیزل سے پیدا کی جانے والی بجلی فی یونٹ 16 روپے میں پڑتی ہے ، تو پانی سے پیدا کی جانے والی کتنے روپے فی یونٹ پڑتی ہے ۔نیوکلئیر پاور سے پیدا کی جانے والی بجلی کتنے روپے فی یونٹ پڑتی ہے ۔اس وقت ملک میں 6500 میگا واٹ ہائیڈل سے پیدا کی جا رہی ہے۔ نیوکلرئت سے 450 میگا واٹ بجلی حاصل کی جا رہی ہے ۔ جبکہ باقی 5 ہزار میگاواٹ کے قریب گیس ،فرنس آئیل اور ڈیزل سے پیدا کی جا رہی ہے ۔
ء2013 میں حکومت پاکستا ن نے واپڈا اور پیپکو کے لئے 134.97 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا ہے ۔اگر باغور جا ئزہ لیا جائے ,تو یہ تما م الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے ۔عوام کو سچ کبھی نہیں بتایا جاتا ۔حکومت کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں سالانہ 210ارب روپے کی بجلی چوری ہو تی ہے ، جبکہ حکومت 130ارب یا 140ارب روپے پر سبسڈی دیتی ہے۔سوال یہ ہے کہ حکومت بجلی پر سبسڈی کیوں دیتی ہے ۔اگر حکومت بجلی چوری پر قابو پائے تو اسے سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور حکومت کی آمدنی میں 50 سے60 ارب روپے کا اضافہ بھی ہو جائے گا۔
جو ماہرین اقتصادیات اور سیاسی رہنما ، ٹی وی پر آ کر سبسڈی کی دہائی دیتے ہیں ،آج تک ان کے منہ سے بجلی چوری کے بارے میں کوئی لفظ نہیں سنا گیا۔ کیا بجلی چوری روکنا حکومت کے فرائض میں شامل نہیں ۔
پاکستان کے عوام سے ہماری گزارش ہے ۔وہ بجلی چوری کے بارے میں آواز اٹھائیں ۔اپنے نمائندوں کو مجبور کریں کہ وہ اس کے بارے میں قانون سازی کریں اور اس کے بارے میں واضع لائحہ عمل اختیار کریں ۔
سبسڈی سبسڈی کا راگ الاپنے کے بجائے اصل کا م کی طرف توجہ دیں ۔وہ ہے بجلی چوری کی مکمل روک تھام !!
Sunday, 26 May 2013
- Our Maulana, Maula (Master, Protector)?? (views: 77)
salah farooq, Pakistan -- Thursday, 16 May 2013, 12:36 pm
- Re: Our Maulana, Maula (Master, Protector)?? (views: 79)
Saadia A. Khan, Norway -- Thursday, 16 May 2013, 4:04 pm
- Re: Our Maulana, Maula (Master, Protector)?? (views: 38)
salah farooq, Pakistan -- Friday, 17 May 2013, 1:40 am
- Re: Our Maulana, Maula (Master, Protector)?? (views: 38)
- Re: Our Maulana, Maula (Master, Protector)?? (views: 79)
- Altaf Hussain: Drunkenness, Lunacy? (views: 58)
salah farooq, Pakistan -- Thursday, 16 May 2013, 12:31 p
مثبت تبدیلی
پاکستان میں تبدیلیوں کی ایسی ہوا چل پڑی ہے ۔جس کے آگے بند بندھانا کسی کے بس میں نہیں ہو گا ۔ہماری تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کیے ۔نگران سیٹ اپ بنایا گیا ۔انتخابات وقت مقراہ پر ہوئے اور آئندہ ہفتے نئی منتخب حکومت قائم ہو نے جا رہی ہے ۔میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم کا حلف اٹھائیں گے ۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک تیسر ی سیاسی قوت بھی ابُھر کر سامنے آئی ہے ، پاکستان تحریک انصاف نے رواتیی سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں ہلچل پید ا کر دی ہے پچھلے 25 سالوں میں پہلی بار کراچی میں متحد ہ کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے سامنے آنے کی جرات کی ہے ۔کراچی کے عوام نے جس طرح ان کی پذیر ائی کی ہے ۔ وہ پاکستان کیلئے ایک اچھا، نیک شگون ثابت ہوگا ۔اگرچہ پی ٹی آئی کراچی سے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشت جیت سکی ہے جبکہ تین نشیتں صوبائی اسمبلی کی ان کے حصے میں آئی ہیں ، وہ بھی متحدہ کے بائیکاٹ کے بعد، اگرچہ متحدہ اس نشت پر بائیکاٹ نہ بھی کرتی تو نتیجہ یہی ہونا تھا ۔
الطاف حسین کے بیانات اور تقرایروں سے واضع ہوتا ہے کہ انھیں کراچی میں پی ٹی آئی سے حقیقی خطر ہ محسوس ہو رہا ہے جس طرح انہوں نے کراچی میں دہشت پھیلا رکھی ہے ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کراچی کے عوام اب مزید اس دہشت زداہ ماحول میں رہنے کیلئے تیار نہیں ۔ وہ امن چاہتے ہیں وہ عرصہ دراز سے کسی ایسی سیاسی قوت کے انتظار میں تھے جو انھیں خوف و دہشت سے نجات دلاے۔ پی ٹی آئی کی صورت میں انھیں وہ قوت نظر آرہی ہے جو ان کے دکھوں کا مداوہ کر سکتی ہے ۔ان انتخابات میں جو سب سے بڑی اور مثبت تبدیلی آئی ہے وہ ہمارے خیال میں پی ٹی آئی کا ایک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنا ہے اور کراچی میں جہاں پر تمام بڑی سیا سی جماعتوں نے متحدہ کیلئے میدان کھلا چھوڑ رکھا تھا وہاں پر پاکستان تحریک انصاف کا اس خلا کو پُر کرنا اور کراچی کے عوام کو یہ یقین دلانا کہ پاکستان میں ایسی سیاسی جماعت موجودہے جو انھیں اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ وہ اس قابل ہے کہ متحدہ کے سامنے کھڑی ہو سکے۔ دو دہائیوں سے کسی سیاسی قوت نے ایسی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ جس کا، پی ٹی ۔آئی نے کیا ہے۔
الطاف حسین کی بو کھلاٹ ،دھمکیاں ، ہچکیاں لے کر رونا اور فریادیں کر نا پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا ۔ اس کے علا وہ جس طرح پاکستانیوں نے دنیا کے مختلف مما لک سے اور خاص کر پاکستان سے برطانوں کو نسلیٹ، سفارت خانے اور لندن پولیس کو جس طرح ای میلز اور خطوط ارسال کیے ہیں وہ بھی ایسی تبدیلی ہے جس کا تصور ماضی میں کسی کے احاطہ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا۔
اس اہم تبدیلی کا کریڈٹ یقنا عمران خان اور ان کی جماعت کو جاتا ہے۔ہم ان لوگوں کی جرات کو بھی سلام پیش کر تے ہیں جنہوں نے کراچی میں اپنے حق کےلئے آواز اٹھائی اور گھروں سے باہر نکل کر خو ف و دہشت کے خلاف عملی قدم اٹھایا۔یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کو متحدہ نہیں روک سکی گی، وہ وقت دور نہیں جب کراچی کے عوام سکھ کا سانس لیں گے ۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی ۔کراچی ایک بار پھر عروس البلاد ہوگا۔ انشاءاللہ
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک تیسر ی سیاسی قوت بھی ابُھر کر سامنے آئی ہے ، پاکستان تحریک انصاف نے رواتیی سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں ہلچل پید ا کر دی ہے پچھلے 25 سالوں میں پہلی بار کراچی میں متحد ہ کے مقابلے میں پی ٹی آئی نے سامنے آنے کی جرات کی ہے ۔کراچی کے عوام نے جس طرح ان کی پذیر ائی کی ہے ۔ وہ پاکستان کیلئے ایک اچھا، نیک شگون ثابت ہوگا ۔اگرچہ پی ٹی آئی کراچی سے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشت جیت سکی ہے جبکہ تین نشیتں صوبائی اسمبلی کی ان کے حصے میں آئی ہیں ، وہ بھی متحدہ کے بائیکاٹ کے بعد، اگرچہ متحدہ اس نشت پر بائیکاٹ نہ بھی کرتی تو نتیجہ یہی ہونا تھا ۔
الطاف حسین کے بیانات اور تقرایروں سے واضع ہوتا ہے کہ انھیں کراچی میں پی ٹی آئی سے حقیقی خطر ہ محسوس ہو رہا ہے جس طرح انہوں نے کراچی میں دہشت پھیلا رکھی ہے ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کراچی کے عوام اب مزید اس دہشت زداہ ماحول میں رہنے کیلئے تیار نہیں ۔ وہ امن چاہتے ہیں وہ عرصہ دراز سے کسی ایسی سیاسی قوت کے انتظار میں تھے جو انھیں خوف و دہشت سے نجات دلاے۔ پی ٹی آئی کی صورت میں انھیں وہ قوت نظر آرہی ہے جو ان کے دکھوں کا مداوہ کر سکتی ہے ۔ان انتخابات میں جو سب سے بڑی اور مثبت تبدیلی آئی ہے وہ ہمارے خیال میں پی ٹی آئی کا ایک سیاسی قوت کے طور پر سامنے آنا ہے اور کراچی میں جہاں پر تمام بڑی سیا سی جماعتوں نے متحدہ کیلئے میدان کھلا چھوڑ رکھا تھا وہاں پر پاکستان تحریک انصاف کا اس خلا کو پُر کرنا اور کراچی کے عوام کو یہ یقین دلانا کہ پاکستان میں ایسی سیاسی جماعت موجودہے جو انھیں اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ وہ اس قابل ہے کہ متحدہ کے سامنے کھڑی ہو سکے۔ دو دہائیوں سے کسی سیاسی قوت نے ایسی جرات کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ جس کا، پی ٹی ۔آئی نے کیا ہے۔
الطاف حسین کی بو کھلاٹ ،دھمکیاں ، ہچکیاں لے کر رونا اور فریادیں کر نا پہلے کبھی بھی نہیں دیکھا گیا ۔ اس کے علا وہ جس طرح پاکستانیوں نے دنیا کے مختلف مما لک سے اور خاص کر پاکستان سے برطانوں کو نسلیٹ، سفارت خانے اور لندن پولیس کو جس طرح ای میلز اور خطوط ارسال کیے ہیں وہ بھی ایسی تبدیلی ہے جس کا تصور ماضی میں کسی کے احاطہ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا۔
اس اہم تبدیلی کا کریڈٹ یقنا عمران خان اور ان کی جماعت کو جاتا ہے۔ہم ان لوگوں کی جرات کو بھی سلام پیش کر تے ہیں جنہوں نے کراچی میں اپنے حق کےلئے آواز اٹھائی اور گھروں سے باہر نکل کر خو ف و دہشت کے خلاف عملی قدم اٹھایا۔یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کو متحدہ نہیں روک سکی گی، وہ وقت دور نہیں جب کراچی کے عوام سکھ کا سانس لیں گے ۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی ۔کراچی ایک بار پھر عروس البلاد ہوگا۔ انشاءاللہ
Sunday, 19 May 2013
INAUGURAL SPEECH OF THE FIRST “RASHIDUN “CALIPH!
O Men Here I have been assigned the job of being a ruler over you while I am not the best among you. If I do well in my job, help me. If I do wrong, redress me. Truthfulness is fidelity and lying is treason. The weak shall be strong in my eyes until I restore to them their lost rights and the strong shall be weak in my eyes until I have restored the rights of the weak from them. No people give up fighting for the cause of Allah but Allah inflicts upon them abject subjection; and no people give themselves to lewdness but Allah envelops them with misery. Obey me as long as I obey Allah and His Prophet. But if I disobey Allah’s command or His Prophet’s, then no obedience is incumbent upon you. Rise to your prayers, That Allah may bless you.
This speech should be part of the oath of our President and Prime Minister.
This speech should be part of the oath of our President and Prime Minister.
Quote of the Day!!
:"The propagandist's purpose is to make one set of people forget that certain other sets of people are human" Aldous Huxley
Wednesday, 15 May 2013
Our Maulana, Maula (Master, Protector)??
Allah (SWT) says in the Holy Quran:
Say,"Never will we be struck except by what Allah has decreed for us; He is our (Maulana) protector." And upon Allah let the believers rely. 9: 51
You are our protector (Maulana), so give us victory over the disbelieving people." 2:286 (Last part of 2:286)
But Allah is your (Maula) protector and He is the best of helpers. 3:150
But if they turn away then know that Allah is your (Maula) protector. Excellent is the protector and Excellent is the helper. 8:40
It is very clear from the Holy Quran that our (Maulana, Maula) is only and only ALLAH. We should never call any person maulana or maula. It is against the commands of ALLAH. It seems very strange that the people who claim to be religious leaders use the word as a title. How ignorant they are any one can imagine. It is my sincere request to my brothers and sisters please refrain from using this word for any mortal.
May ALLAH guide us to the right path.
Say,"Never will we be struck except by what Allah has decreed for us; He is our (Maulana) protector." And upon Allah let the believers rely. 9: 51
You are our protector (Maulana), so give us victory over the disbelieving people." 2:286 (Last part of 2:286)
But Allah is your (Maula) protector and He is the best of helpers. 3:150
But if they turn away then know that Allah is your (Maula) protector. Excellent is the protector and Excellent is the helper. 8:40
It is very clear from the Holy Quran that our (Maulana, Maula) is only and only ALLAH. We should never call any person maulana or maula. It is against the commands of ALLAH. It seems very strange that the people who claim to be religious leaders use the word as a title. How ignorant they are any one can imagine. It is my sincere request to my brothers and sisters please refrain from using this word for any mortal.
May ALLAH guide us to the right path.
Monday, 13 May 2013
Attention deficit disorder, Drunkenness or simple lunacy?
The News, May 13 2013.
KARACHI: In a reply to allegations pertaining to poll rigging being leveled against MQM in Karachi and Hyderabad, Muttahida Qaumi Movement (MQM) Chief Altaf Hussain said if the ‘establishment’ doesn’t like the mandate of his party, it should go ahead and detach it from the rest of the country.
“Separate Karachi (from the rest of the country) if you dislike its people’s mandate,” Altaf Hussain said to the ‘establishment’ while addressing his party workers and supporters via telephone at his party’s Headquarters, Nine Zero.
He said, ‘instead of abusing Karachi and its people, separate Karachi from Pakistan’ and warned the ‘establishment’ that they were playing with fire. “If you didn’t stop playing with fire, it would burn down the entire Pakistan,” he snapped, and at the same time added that he was not issuing any threats to anyone.
While addressing Karachiites MQM,s Chief went mad. he issued lot of threats, let,s see what he said;
1. Separate karachi from Pakistan if you don,t like MQM mandate.
2. Stop playing with fire, it would burn down the entire country.
3. If election commission can not reach a decision with honesty they will not be able to find any shelter.
4 He (Altaf) should not be blamed if war breaks out in Karachi.
5. He made threats against his own party members.
After saying all this he added that he was not issuing any threats to anyone.
If these were not threats what was that, can MQM chief explain it. In my opinion he is going crazy. He knows his time is running out, sooner or later London police will arrest him. His criminal gang killed thousands of innocent people, friends or foe alike. He has to pay one day, the sooner that time comes the better it will be for Pakistan.
KARACHI: In a reply to allegations pertaining to poll rigging being leveled against MQM in Karachi and Hyderabad, Muttahida Qaumi Movement (MQM) Chief Altaf Hussain said if the ‘establishment’ doesn’t like the mandate of his party, it should go ahead and detach it from the rest of the country.
“Separate Karachi (from the rest of the country) if you dislike its people’s mandate,” Altaf Hussain said to the ‘establishment’ while addressing his party workers and supporters via telephone at his party’s Headquarters, Nine Zero.
He said, ‘instead of abusing Karachi and its people, separate Karachi from Pakistan’ and warned the ‘establishment’ that they were playing with fire. “If you didn’t stop playing with fire, it would burn down the entire Pakistan,” he snapped, and at the same time added that he was not issuing any threats to anyone.
While addressing Karachiites MQM,s Chief went mad. he issued lot of threats, let,s see what he said;
1. Separate karachi from Pakistan if you don,t like MQM mandate.
2. Stop playing with fire, it would burn down the entire country.
3. If election commission can not reach a decision with honesty they will not be able to find any shelter.
4 He (Altaf) should not be blamed if war breaks out in Karachi.
5. He made threats against his own party members.
After saying all this he added that he was not issuing any threats to anyone.
If these were not threats what was that, can MQM chief explain it. In my opinion he is going crazy. He knows his time is running out, sooner or later London police will arrest him. His criminal gang killed thousands of innocent people, friends or foe alike. He has to pay one day, the sooner that time comes the better it will be for Pakistan.
There you go, again!!!!
The article below was published by The Economist in 1999. Mr. Nawaz Sharif was the Prime Minister of Pakistan then. I hope and pray that he will not repeat the same mistakes. His wrong decissions and uncompromising behaviour got him in trouble then. He learnt any lessons or not only time will tell? His frist test will be KPK. If he respects PTI,s mandate in KPK and allows them to form government that will be a good sign. Though JUI,s Mr. Fazal ur Rehman tempting him to do the opposite.
Leonarde da Vinci once said "It is easier to resist at the beginning than at the end." This is our humble suggestion to our in coming Prime Minister.
The rot in Pakistan
“DEVELOPMENT”, wrote James Wolfensohn, the president of the World Bank, earlier this year, “requires good governance, meaning open, transparent, accountable public institutions.” Over the past year or two of economic turmoil in Asia—turmoil caused, in the view of many, by a lack of governmental accountability—Mr Wolfensohn's prescription has become a favourite theme in the corridors of the World Bank and the IMF. So when a government sets about undermining the institutions designed to hold it in check, it is time to start thinking about shutting off the flow of money.
Pakistan has been run by such dreadful governments for so long that it seems barely worth remarking on any deterioration. But whereas previous governments were chaotic in their awfulness, this one has turned out to be systematic. Over the past two years Nawaz Sharif, the prime minister, has been picking off individuals and institutions that he believes pose any threat to his own power. He has seen off a president and the chief of the army staff, and is now trying to push through a constitutional amendment that would give him sweeping powers to ignore Pakistan's legislature and provincial governments in the name of Islamisation.
The judiciary at first tried to check Mr Sharif, but has given up. When the chief justice of the Supreme Court, Sajjad Ali Shah, took the president's side in an argument with the prime minister in 1997, a mob from Mr Sharif's party stormed the Supreme Court and Mr Sharif sacked Mr Shah. The courts have given Mr Sharif little trouble since.
This year it is the turn of the press. A few months back, the Jang Group of newspapers had its bank accounts frozen and its newsprint confiscated. Now Najam Sethi, a newspaper publisher and editor (and a former correspondent of The Economist), is being held without charge, accused, by government press releases, of working for both the CIA and Indian intelligence. The government insists that his arrest has nothing to do with a campaign against the press—which makes it odd, then, that all copies of his paper, the FridayTimes, were seized last week, and that its website has been jammed.
All this is unfortunate for Pakistanis, of course, but should it really matter to those who hand out the money? Yes. Without an independent judiciary and a free press, there is little chance of the accountability and openness that Mr Wolfensohn regards as essential to development.
Signs already abound that money which should have been spent on development is being wasted. A scheme to help poor Pakistanis become taxi-drivers has involved the distribution of concessional loans at politicians' discretion. Neither the grand Islamabad-Lahore highway nor the unnecessary new airport at Karachi is justified by economics.
Mr Sharif's predecessor, Benazir Bhutto, has just been sentenced in absentia to five years in jail for corruption. Mr Shah, the sacked chief justice, had agreed to hear corruption charges against Mr Sharif, but was sacked shortly afterwards. Mr Sharif's family has been tainted by a High Court judgment in London against his father and two brothers in March, ordering them to repay $32.5m in loans taken out from a Saudi finance house for a paper mill owned by the family. Mr Sethi had written a sharp editorial commenting on this judgment the week before he was arrested.
Before the end of the month, the IMF's board is due to consider releasing the next tranche of a $1.6 billion loan. It should think long and hard about whether Mr Sharif's Pakistan is really likely to use the money well. Of course, there are many badly governed countries in the world, but some of them, often thanks to prodding from outside, have been moving in the right direction. Pakistan under Mr Sharif is moving in the wrong direction. It seems perverse to give it more cash to speed it on its way.
The counter-argument that carries most weight with the United States—which has much influence in these matters—is that the alternatives to Mr Sharif's government are even nastier. Afghanistan, over the border, is run by the Taliban, a bunch of fearsome Islamic zealots. Pakistan is a nuclear power. Nobody in the West wants a nuclear Taliban.
Who's the bogeyman?
This argument is favoured by many unattractive governments. It often works. It got the sanctions that had been applied after Pakistan's nuclear test last year lifted only six months later. It got Boris Yeltsin boatloads of money: all he had to do was hold up the spectre of the ultra-nationalist Vladimir Zhirinovsky, or the Communists, or both, and another cheque was written. The procedure has the merit, sometimes, of genuinely preventing villains from taking over. Its flaw, though, is that it usually prevents any decent alternative to the gang in power from emerging.
Anyway, the bogeyman threat is even less convincing in Pakistan than it was in Russia. Pakistanis show little enthusiasm for Taliban-style politics. Fundamentalist parties got 5% of the vote in the last election. They hate each other even more than they hate the secular elite, so it would be hard for any one group to impose its views on the country. And the further Mr Sharif goes in undermining the few checks on his own power, the harder it will be to tell the difference between him and the bogey that might replace him. Pakistan needs an accountable government; then the money can follow.
Friday, 10 May 2013
بادشاہ، جمہوریت اور سسکتی عوام
الیکشن قریب ہیں اور مملکت خداداد پاکستان میں سیاسی بحث ، کشمکش ، جوڑ توڑ اور ان سے کے ساتھ ایک بے چینی بھی عروج پر ہے۔ کوئی ملک کو بچانے کی بات کر رہا ہے تو کوئی جمہوریت کی، کوئی عوام کا بھلا کرنے کے دعوے کر رہا ہے۔ اور کوئی بھلا کیا ہوا یاد دلا کر عوام سے با ادب ووٹ لینے کھڑا ہے۔
بازاروں ، دفتروں اور ٹی وی چینلوں پر ہر طرف الیکشن کی باتیں سنتے ہوئے ، کچھ دنوں سے اقبال کے دو شعر دماغ میں گونج رہے ہیں۔
خبر ہے سلطانی جمود کا غوغا کے شر
تو جہاں کےتازہ فتنوں سے ہی ہے باخبر
ہوں مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو اس سے کیا خطر
کیا سچ کہا ہے علامہ اقبال نے
جمہوریت کو بچانے والے اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار کہنے والے اور مفاہمت کی سیاست سے جمہوریت کو پٹری سے ڈی ریل ہونے سے بچانے والے ملوکیت کی حدوں سے بھی پار نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہنے والے جب اپنے سینکڑوں سیکیورٹی اہلکاروں اور بیسیوں گاڑیوں کے ساتھ جب لاہور کی سڑکوں پر نکلتے ہیں تو یہ منظر دیکھ کر اکثر یوں محسوس ہوتاہے ، جیسے مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے لاؤ لشکر لے کر اپنے ہاتھوں سے تباہ کئے ہوئے لاہورمیں سیر کے لئے نکلا ہو۔ اور لوگوں کو ان کی بے بسی کا یقین دلاتے ہوئے ان کا تماشہ دیکھ رہا ہو۔ جاتی عمرہ کو جانے والی سڑکیں اور سیکیورٹی یہ یقین دلاتی ہے کہ بادشاہ سلامت کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔
جیلیں کاٹنے والے ، جانوں کی قربانی دینے والے اور ووٹ سے شاہ کی وفاداریوں کا ثبوت دینے والے آج بھی روٹی کپڑا اور مکان کے منتظر ہیں۔ لیکن اس کے برعکس آمریتوں کے سائے میں پلنے والے جیالوں کے ساتھ اور قاتل لیگ کے قاتل نہ صرف اپنے بینک بیلنس ، گھر اور جائداد بناتے رہے بلکہ قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی ۔ وہ جس پر چاہیں اپنا نظر کرم کریں۔ شاہ کی وفاداری ناپنے کے پیمانے اور ہیں۔ یہ صرف نظریئے کے لئے قربانیاں دینے اور جیلیں کاٹنے سے نہیں ناپی جا سکتی۔
آمریت کی بڑائی سے کس کافر کو انکار ہے ۔ لیکن یہ جمہوری بادشاہ کسی غریب کو اس کا حق دلانے کے وعدے کرتے ہیں، کہیں آمریت سے عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ کبھی جمہوریت کی نوید سناتے ہیں۔ انہوں نے ان گزشتہ سالوں میں کتنے گھر روشن کئے ، کتنے چولہوں کو گرم کیا ۔ کتنے چہروں پے مسکراہٹیں بکھیری اور کتنی آوازوں کو قہقوں میں بدلا۔
افسوس کہ یہ جمہوری ذمہ داریاں پردے کے اس طرف ہی رہی اورپردے کے اس طرف ملوکیت ہی اپنا کام کرتی رہی۔
چند دنوں میں الیکشن ہیں، بادشاہ پھر عوامی نمائندے بن کر ووٹ کے لئے عوام کے سامنے موجود ہیں۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
پھر اس کے بعد جو تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
تحریر: محمد سعد
بازاروں ، دفتروں اور ٹی وی چینلوں پر ہر طرف الیکشن کی باتیں سنتے ہوئے ، کچھ دنوں سے اقبال کے دو شعر دماغ میں گونج رہے ہیں۔
خبر ہے سلطانی جمود کا غوغا کے شر
تو جہاں کےتازہ فتنوں سے ہی ہے باخبر
ہوں مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو اس سے کیا خطر
کیا سچ کہا ہے علامہ اقبال نے
جمہوریت کو بچانے والے اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار کہنے والے اور مفاہمت کی سیاست سے جمہوریت کو پٹری سے ڈی ریل ہونے سے بچانے والے ملوکیت کی حدوں سے بھی پار نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہنے والے جب اپنے سینکڑوں سیکیورٹی اہلکاروں اور بیسیوں گاڑیوں کے ساتھ جب لاہور کی سڑکوں پر نکلتے ہیں تو یہ منظر دیکھ کر اکثر یوں محسوس ہوتاہے ، جیسے مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے لاؤ لشکر لے کر اپنے ہاتھوں سے تباہ کئے ہوئے لاہورمیں سیر کے لئے نکلا ہو۔ اور لوگوں کو ان کی بے بسی کا یقین دلاتے ہوئے ان کا تماشہ دیکھ رہا ہو۔ جاتی عمرہ کو جانے والی سڑکیں اور سیکیورٹی یہ یقین دلاتی ہے کہ بادشاہ سلامت کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔
جیلیں کاٹنے والے ، جانوں کی قربانی دینے والے اور ووٹ سے شاہ کی وفاداریوں کا ثبوت دینے والے آج بھی روٹی کپڑا اور مکان کے منتظر ہیں۔ لیکن اس کے برعکس آمریتوں کے سائے میں پلنے والے جیالوں کے ساتھ اور قاتل لیگ کے قاتل نہ صرف اپنے بینک بیلنس ، گھر اور جائداد بناتے رہے بلکہ قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی ۔ وہ جس پر چاہیں اپنا نظر کرم کریں۔ شاہ کی وفاداری ناپنے کے پیمانے اور ہیں۔ یہ صرف نظریئے کے لئے قربانیاں دینے اور جیلیں کاٹنے سے نہیں ناپی جا سکتی۔
آمریت کی بڑائی سے کس کافر کو انکار ہے ۔ لیکن یہ جمہوری بادشاہ کسی غریب کو اس کا حق دلانے کے وعدے کرتے ہیں، کہیں آمریت سے عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ کبھی جمہوریت کی نوید سناتے ہیں۔ انہوں نے ان گزشتہ سالوں میں کتنے گھر روشن کئے ، کتنے چولہوں کو گرم کیا ۔ کتنے چہروں پے مسکراہٹیں بکھیری اور کتنی آوازوں کو قہقوں میں بدلا۔
افسوس کہ یہ جمہوری ذمہ داریاں پردے کے اس طرف ہی رہی اورپردے کے اس طرف ملوکیت ہی اپنا کام کرتی رہی۔
چند دنوں میں الیکشن ہیں، بادشاہ پھر عوامی نمائندے بن کر ووٹ کے لئے عوام کے سامنے موجود ہیں۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
پھر اس کے بعد جو تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
تحریر: محمد سعد
Wednesday, 8 May 2013
CSID Tunisia Big Logo
Dear Friends:
Yes, Tunisia also needs a leader like Imran Khan. Islam-democracy.
Yes, Tunisia also needs a leader like Imran Khan. Islam-democracy.
Baher Kamal from Egypt says!
There are far too many problems that are a serious source of concern
to Egyptian citizens. They are deeply worried about their present and
immediate future now that inter-religious violence is on the rise,
triggering a dangerous, growing insecurity amidst an overwhelming
popular discontent with President Mohamed Morsi’s regime. Simply put,
there is too much frustration and deception here to describe.
We have all the woes, and more, in Egypt than Pakistan has. Unfortunately, we do not have an Imran Khan on the horizon.
Dear Pakistani brothers and sisters,
Please vote for Imran for your own good, and a strong Pakistan will be an inspiration for the Egyptians.
With thanks,
Baher Kamal and colleagues
We have all the woes, and more, in Egypt than Pakistan has. Unfortunately, we do not have an Imran Khan on the horizon.
Dear Pakistani brothers and sisters,
Please vote for Imran for your own good, and a strong Pakistan will be an inspiration for the Egyptians.
With thanks,
Baher Kamal and colleagues
Tuesday, 7 May 2013
Politicians!!!!!!
"Asking politicians to give up a source of money is like asking Dracula to forsake blood." Cal Thomas
Monday, 6 May 2013
Nawaz Sharif,s Interview?
In an interview
with the Indian media, the PML-N chief said if voted to power, he would
constitute a commission to probe Kargil and the Mumbai incidents.“The
commission’s report will be made public and the Indian government will
also be informed.( TheNews. May 6 2013)
It seems Mr. Nawaz Sharif does not think before he speaks. He should not be saying what he said to the Indian media. I think this was meant for Pakistan Army, he is trying to confront Pak Army the way he did in 1999. It,s o.k to constitute a commission to probe Kargil and the findings should be made public but why will he inform India. PML-N should learn form the present Turkish Government. How they put Turkey on the road to progress, how they transformed the economy. They had the same problems we have in our country, hostile military, bureaucracy,ultra secular political parties and Kurd insurgency.
Mr. Nawaz Sharif,s focus should be on the welfare of the people of Pakistan, he has to forget what happened in 1999. When people of Pakistan are happy and stand shoulder to shoulder with PML-N, he can do whatever is necessary to curb the power of military and civil bureaucracy. Till that time please focus on basic problems like education, health, poverty, load shedding, failing economy and terrorism.
It seems Mr. Nawaz Sharif does not think before he speaks. He should not be saying what he said to the Indian media. I think this was meant for Pakistan Army, he is trying to confront Pak Army the way he did in 1999. It,s o.k to constitute a commission to probe Kargil and the findings should be made public but why will he inform India. PML-N should learn form the present Turkish Government. How they put Turkey on the road to progress, how they transformed the economy. They had the same problems we have in our country, hostile military, bureaucracy,ultra secular political parties and Kurd insurgency.
Mr. Nawaz Sharif,s focus should be on the welfare of the people of Pakistan, he has to forget what happened in 1999. When people of Pakistan are happy and stand shoulder to shoulder with PML-N, he can do whatever is necessary to curb the power of military and civil bureaucracy. Till that time please focus on basic problems like education, health, poverty, load shedding, failing economy and terrorism.
Saturday, 4 May 2013
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
ساری دنیا میں بہت سے ایسے تہوار منائے جاتے ہیں ۔جو اگرچہ بہت مشہور
معروف ہیں ۔ لوگ جو ق در جوق ان کو مناتے جا رہے ہیں۔ لیکن انکی حقیقت کے
بارے میں لوگوں کو کچھ معلوم نہیں ۔کچھ تہوار ایسے ہیں ،جو مغربی ممالک میں
منا ئے جاتے ہیں ۔ لیکن آہستہ آہستہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ان کو
بلاسوچے سمجھے منانا شروع کر دیا ہے۔ ذائع ابلاغ کی ترقی نے بھی اس میں بڑا
کر دار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں پچیس -تیس پہلے تک لوگوں کی اکثریت ویلن ٹائن ڈے سے
واقف نہ تھی ۔ اب یہ حالت ہے کہ اخبارات اس دن خاص ایڈیشن شائع کرتے ہیں۔
ٹی وی ، چینلز خصوصی پروگرام نشر کرتے ہیں ۔
ویلن ٹائن ڈے منا نے کی ابتداء1797 میں برطانیہ سے ہوئی ۔ پیسہ کمانے کی ہوس نے بھی اس کو پھیلانے میں اہم کرداکسی نے آج تک یہ کوشش نہیں کی کہ اس کے بارے میں حقیقت حا ل بیان کرے۔ سینٹ ویلنٹائن صاحب کون تھے ،اور یہ دن کیوں منایا جاتا ہے۔ نام سے معلوم ہوتا ہے کہ سینٹ صاحب شاہد کوئی عیسائی رہے ہوں ،لیکن یہ پتہ نہیں کی کس زمانے میں تھے۔ کونسی ایسی خصوصیت تھی ،جسکی بنیاد پران کے نام پر دن منا یا جاتا ہے۔عشق و محبت کا اس سینٹ (Saint) سے کیا تعلق ہے ۔
مغربی تہذیب میں بہت سی شخصیات ویلن ٹائن کے نام سے مشہور ہیں ۔ رومنوں کے عیسائی مذہب قبول کرنے سے پہلے وہ مختلف تہوار بھی مناتے تھے،جن میں ایک لپریکس کا تہوار بھی تھا ۔ جوکہ وسط جنوری سے وسط فرروی کے درمیان منایا جاتا تھا ۔ قدیم یونانی دیو مالائی کہانیوں میں مشہور تھا کہ اس دن دیوتا زیس اور دیوی ہیرا کی مقدس شادی ہوئی تھی۔ قدیم روم میں 13 فروری سے15 فرروی تک افزائش نسل کا دن منایا تھا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب رومنوں نے عیسائیت قبول کی تو پادری صاحبان نے وحشی اور جاہل رومنوں کے تہواروں کو عیسائیت سے ہم آہنگ کرنے کے لئےان کے تہواربھی عیسائیت میں شامل کرلئے۔ جس طرح 25دسمبر کو کر سمس کا دن قرار دیاگیا ، حالانکہ جدید تحقیق سے ثابت ہوتا ہے .کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام دسمبر میں نہیں ،بلکہ ستمبر میں پیدا ہوئے تھے۔
تاریخی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی تمام اقوام ویلن ٹائن ڈے کی طرح کا کوئی نہ کوئی دن مناتی ہیں سوائے ،عربوں اور افریقی قبائل کے۔
حضرت نوعؑ کے طوفاں کے بعد انسانی تہذیب کی ابتدا د جلہ اور فرات کے درمیانی علاقے سے ہوئی ۔حضرت ابراہیم ؑ بھی اسی خطہ میں پیدا ہوئے۔جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے شرک اور ظلم سے مجبور ہو کر ہجرت کی ،اسی طرح نمرود کے زمانے میں بہت سے قبائل نے بھی اسی خطے سے یورپ کی طرف ہجرت کی، لیکن وہ لوگ اپنے ساتھ اپنے عقائد اور رسوم بھی ساتھ لے گئے۔
آل نمرود بت پرستی ، سورج، چاند ، دیوی ، دیوتاوں، جانوروں، پجاری اور آل ابراہیم ؑ، وحدانیت ، ایک اللہ کی عبادت ، برابری ، حسن خلق ، روادری ، ایما ن ومساوات کے ماننے والے ، ایک طرف آگ کے پجاری جبکہ دوسری طرف حق کے آگے سر جھکانے والے،ان دو نظریات کے درمیان جنگ ہزروں سالوں سے جاری ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ عیسائی ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔رسالہ (پلین ٹروتھ) مسڑ ہر من ایک امریکی ہیں ،وہ لکھتے ہیں کہ سینٹ صاحب کوئی عیسائی نہ تھے۔ نہ معلوم کیوں عیسائی دنیا نے ان کا دن منانا شروع کیا اور انہیں پوجنے لگے۔
مسڑ ہر من لکھتے ہیں کہ کسی عیسائی پادری سے پوچھوکہ سینٹ ویلن ٹائن کون تھے ،یہ کب اور کہاں پیدا ہوئے اور عیسائیت کے لئے ان کی کیا خدمات تھیں ،تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے گا ، یا 14 فرروی کو نو جوان مرد اور عورتیں پان کی شکل کا ایک دل جو تیر سے چھیدا ہو تا ہے ۔ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور اس دن کس بات کی اتنی خوشی منا ئی جا تی ہے ۔ جبکہ اس رسم کا انجیل مقدس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
وہ آگے لکھتے ہیں کہ لپریکس اور ویلنٹائن کے معنی بہادر شکاری ، خونخوار اور خوفناک کے ہیں ۔ جبکہ سینٹ (ولی) کو کہتے ہیں،پس ایسا ولی کون ہو سکتا ہے ۔اس کا جواب ہم یونانی دیو مالائی داستانوں میں تلاش کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
یونانی اسے پیٹریان کہتے ہیں ۔ بابلی زبان میں یہ پدربعل ہے(یعنی سورج کا بیٹا ) بعل کا ذکر انجیل مقدس میں بھی کہی مرتبہ آیا ہے ۔اس دیوتا کی پوجا نمرود نے شروع کی تھی ، نمرود کو شیر دل اور خونخوار سمجھا جاتا تھا ۔اس کی قوم نے اس کے مجسمے شیر اور بھیٹر ئیے کی شکل میں بنائے۔ سر زمین بابل و نینوا میں یہ شکلیں غاروں اور چٹانو ں میں آج بھی کندہ ہیں ۔ نمر ود بد چلن اور بد کردار تھا ۔وہ دوسروں کی بہو بیٹیوں سے حرام کاری کرتا ،بلکہ اپنی ماں اور بہن کو بھی نہ چھوڑتا تھا ۔ اقوام عالم میں بد چلنی کا رواج اسی کی خرمستیوں کا مرہون
اسی طرح کے ایک خاص موقع پر نمرود نے اپنی ماں ایسڑا , یا اشطور کے ساتھ بھی بد کاری کی ،جس سے وہ حاملہ ہوگئی ۔ اس ناجائز اختلاط کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہو ا ۔اس کا نام کیوپڈ رکھا گیا ، جس کے معنی ہیں ۔ خواہش طلب ،یا عشق کا دیوتا
روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابل پر کسی دوسری قوم نے حملہ کردیا۔ اور شہرکو تاراج کرڈالا ،نمرود بابل چھوڑکر بھاگ گیا۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد نمرود کا گھوڑا واپس آگیا مگر نمرود کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔ اسکی ماں ایسڑ, یا اشطور نے جوکہ نمرود کے بیٹے کی بھی اب ماں بن چکی تھی یہ مشہور کر دیا کہ نمرود کسی رات اسی طرح خاموشی سے واپس آ جائے گا جس طرح غائب ہوا ہے۔ پھراسی طرح امن وامان اور عیش ومسرت کا دور دورہ ہوگا ۔ جس طرح نمرود کے دور میں تھا- چنانچہ بابل کے لوگ اس گھوڑے کو لیکر گلی گلی ،کوچہ کوچہ ،پھر نے اور اعلان کرنے لگے ۔ کہ بادشاہ نمرود کا گھوڑا واپس آگیا ہے ۔ کسی د ن اس کا سوار بھی واپس آجائے گا ۔پس انتظار کرو۔ چنانچہ آریائی نسل کی قومیں ہزروں سالوں سے اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہی ہیں ۔ اورہر سا ل اس فرار اور واپسی کی تمثیل بطور یادگارپیش کرتی ہیں ۔ اور لطف کی بات ہے کہ عیسائی ہونے کے بعد بھی یہ اپنے قدیم مربی کونہ بھولے ۔ بس اتنی تبدیلی قبول کر لی کہ اب نمرود کے نام کے بجائے اسے شیر دل ولی یا نخوار والی (سینٹ ویلن ٹائن ) کہہ دیتے ہیں۔
ہمارے اربا ب اقتدار ،مذہبی رہنما اور معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے سے ہماری گزارش ہے کہ اپنا اپنا فر ض ادا کریں۔ قو م کے نوجونوں کو حقائق سے آ گاہ کریں تاکہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرسکیں۔ کیا ہم ہدایت پانے کے بعد بھی اصنام پرستوں،بدکاروں کے تہوار مناتے رہیں گے؟
ویلن ٹائن ڈے منا نے کی ابتداء1797 میں برطانیہ سے ہوئی ۔ پیسہ کمانے کی ہوس نے بھی اس کو پھیلانے میں اہم کرداکسی نے آج تک یہ کوشش نہیں کی کہ اس کے بارے میں حقیقت حا ل بیان کرے۔ سینٹ ویلنٹائن صاحب کون تھے ،اور یہ دن کیوں منایا جاتا ہے۔ نام سے معلوم ہوتا ہے کہ سینٹ صاحب شاہد کوئی عیسائی رہے ہوں ،لیکن یہ پتہ نہیں کی کس زمانے میں تھے۔ کونسی ایسی خصوصیت تھی ،جسکی بنیاد پران کے نام پر دن منا یا جاتا ہے۔عشق و محبت کا اس سینٹ (Saint) سے کیا تعلق ہے ۔
مغربی تہذیب میں بہت سی شخصیات ویلن ٹائن کے نام سے مشہور ہیں ۔ رومنوں کے عیسائی مذہب قبول کرنے سے پہلے وہ مختلف تہوار بھی مناتے تھے،جن میں ایک لپریکس کا تہوار بھی تھا ۔ جوکہ وسط جنوری سے وسط فرروی کے درمیان منایا جاتا تھا ۔ قدیم یونانی دیو مالائی کہانیوں میں مشہور تھا کہ اس دن دیوتا زیس اور دیوی ہیرا کی مقدس شادی ہوئی تھی۔ قدیم روم میں 13 فروری سے15 فرروی تک افزائش نسل کا دن منایا تھا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب رومنوں نے عیسائیت قبول کی تو پادری صاحبان نے وحشی اور جاہل رومنوں کے تہواروں کو عیسائیت سے ہم آہنگ کرنے کے لئےان کے تہواربھی عیسائیت میں شامل کرلئے۔ جس طرح 25دسمبر کو کر سمس کا دن قرار دیاگیا ، حالانکہ جدید تحقیق سے ثابت ہوتا ہے .کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام دسمبر میں نہیں ،بلکہ ستمبر میں پیدا ہوئے تھے۔
تاریخی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی تمام اقوام ویلن ٹائن ڈے کی طرح کا کوئی نہ کوئی دن مناتی ہیں سوائے ،عربوں اور افریقی قبائل کے۔
حضرت نوعؑ کے طوفاں کے بعد انسانی تہذیب کی ابتدا د جلہ اور فرات کے درمیانی علاقے سے ہوئی ۔حضرت ابراہیم ؑ بھی اسی خطہ میں پیدا ہوئے۔جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے شرک اور ظلم سے مجبور ہو کر ہجرت کی ،اسی طرح نمرود کے زمانے میں بہت سے قبائل نے بھی اسی خطے سے یورپ کی طرف ہجرت کی، لیکن وہ لوگ اپنے ساتھ اپنے عقائد اور رسوم بھی ساتھ لے گئے۔
آل نمرود بت پرستی ، سورج، چاند ، دیوی ، دیوتاوں، جانوروں، پجاری اور آل ابراہیم ؑ، وحدانیت ، ایک اللہ کی عبادت ، برابری ، حسن خلق ، روادری ، ایما ن ومساوات کے ماننے والے ، ایک طرف آگ کے پجاری جبکہ دوسری طرف حق کے آگے سر جھکانے والے،ان دو نظریات کے درمیان جنگ ہزروں سالوں سے جاری ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ عیسائی ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔رسالہ (پلین ٹروتھ) مسڑ ہر من ایک امریکی ہیں ،وہ لکھتے ہیں کہ سینٹ صاحب کوئی عیسائی نہ تھے۔ نہ معلوم کیوں عیسائی دنیا نے ان کا دن منانا شروع کیا اور انہیں پوجنے لگے۔
مسڑ ہر من لکھتے ہیں کہ کسی عیسائی پادری سے پوچھوکہ سینٹ ویلن ٹائن کون تھے ،یہ کب اور کہاں پیدا ہوئے اور عیسائیت کے لئے ان کی کیا خدمات تھیں ،تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے گا ، یا 14 فرروی کو نو جوان مرد اور عورتیں پان کی شکل کا ایک دل جو تیر سے چھیدا ہو تا ہے ۔ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور اس دن کس بات کی اتنی خوشی منا ئی جا تی ہے ۔ جبکہ اس رسم کا انجیل مقدس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
وہ آگے لکھتے ہیں کہ لپریکس اور ویلنٹائن کے معنی بہادر شکاری ، خونخوار اور خوفناک کے ہیں ۔ جبکہ سینٹ (ولی) کو کہتے ہیں،پس ایسا ولی کون ہو سکتا ہے ۔اس کا جواب ہم یونانی دیو مالائی داستانوں میں تلاش کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
یونانی اسے پیٹریان کہتے ہیں ۔ بابلی زبان میں یہ پدربعل ہے(یعنی سورج کا بیٹا ) بعل کا ذکر انجیل مقدس میں بھی کہی مرتبہ آیا ہے ۔اس دیوتا کی پوجا نمرود نے شروع کی تھی ، نمرود کو شیر دل اور خونخوار سمجھا جاتا تھا ۔اس کی قوم نے اس کے مجسمے شیر اور بھیٹر ئیے کی شکل میں بنائے۔ سر زمین بابل و نینوا میں یہ شکلیں غاروں اور چٹانو ں میں آج بھی کندہ ہیں ۔ نمر ود بد چلن اور بد کردار تھا ۔وہ دوسروں کی بہو بیٹیوں سے حرام کاری کرتا ،بلکہ اپنی ماں اور بہن کو بھی نہ چھوڑتا تھا ۔ اقوام عالم میں بد چلنی کا رواج اسی کی خرمستیوں کا مرہون
منت تھا . یہی نمرود کہیں لپریکس ہے کہیں سینٹ ویلیٹائن ،کہیں وشنو
اور کہیں سانتا کلاز (پنجوں والا پیر) دل کے پا ن نما نشان میں اسی عشق و محبت کی طرف اشارہ ملتا ہے ،جسکی اس نے بنیا د ڈالی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نمرود نے آگ کی پوجا کر نے کے لئے بڑے بڑے آتش کدے بنوائے ۔خاص موقعوں پر وہ شہرکی آبادی کو ترغیب دیتا اور انہیں آپس میں بیویا ں بد لنے پر مجبورکرتا ۔ جو بھی آتش کدے میں آتا ۔ نذرانے پیش کرنے کے بعد ان کا فر ض تھا کہ بد کاری بھی کریں،اس مقصد کے لئے آتش کدوں کے ساتھ عمارتیں بھی ہوتی تھیں۔اسی طرح کے ایک خاص موقع پر نمرود نے اپنی ماں ایسڑا , یا اشطور کے ساتھ بھی بد کاری کی ،جس سے وہ حاملہ ہوگئی ۔ اس ناجائز اختلاط کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہو ا ۔اس کا نام کیوپڈ رکھا گیا ، جس کے معنی ہیں ۔ خواہش طلب ،یا عشق کا دیوتا
روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابل پر کسی دوسری قوم نے حملہ کردیا۔ اور شہرکو تاراج کرڈالا ،نمرود بابل چھوڑکر بھاگ گیا۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد نمرود کا گھوڑا واپس آگیا مگر نمرود کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔ اسکی ماں ایسڑ, یا اشطور نے جوکہ نمرود کے بیٹے کی بھی اب ماں بن چکی تھی یہ مشہور کر دیا کہ نمرود کسی رات اسی طرح خاموشی سے واپس آ جائے گا جس طرح غائب ہوا ہے۔ پھراسی طرح امن وامان اور عیش ومسرت کا دور دورہ ہوگا ۔ جس طرح نمرود کے دور میں تھا- چنانچہ بابل کے لوگ اس گھوڑے کو لیکر گلی گلی ،کوچہ کوچہ ،پھر نے اور اعلان کرنے لگے ۔ کہ بادشاہ نمرود کا گھوڑا واپس آگیا ہے ۔ کسی د ن اس کا سوار بھی واپس آجائے گا ۔پس انتظار کرو۔ چنانچہ آریائی نسل کی قومیں ہزروں سالوں سے اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہی ہیں ۔ اورہر سا ل اس فرار اور واپسی کی تمثیل بطور یادگارپیش کرتی ہیں ۔ اور لطف کی بات ہے کہ عیسائی ہونے کے بعد بھی یہ اپنے قدیم مربی کونہ بھولے ۔ بس اتنی تبدیلی قبول کر لی کہ اب نمرود کے نام کے بجائے اسے شیر دل ولی یا نخوار والی (سینٹ ویلن ٹائن ) کہہ دیتے ہیں۔
ہمارے اربا ب اقتدار ،مذہبی رہنما اور معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے سے ہماری گزارش ہے کہ اپنا اپنا فر ض ادا کریں۔ قو م کے نوجونوں کو حقائق سے آ گاہ کریں تاکہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرسکیں۔ کیا ہم ہدایت پانے کے بعد بھی اصنام پرستوں،بدکاروں کے تہوار مناتے رہیں گے؟
مغرب مخالف تنظیموں سے رابطے نئی امریکی و برطانوں حکمت عملی
برطانوں ذرائع ابلاغ کے مطابق بر طانو ں حکومت نے حزب اللہ کے سیاسی ونگ کیساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیاہے ۔امریکی صدر نے بھی کہا ہے کہ وہ طالبان کے اس ڈھرے کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیںجو انتہا پسند نہیں ہیں،اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ طالبان میں پھوٹ ڈالی جا ئے ۔ یہ اطلاعات اگر چہ خوش آئند ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مغربی حکومتیں جو اپنے آپ کو آئین وقانون کی پابند ،انسانی حقوق کی علمبر دار ،سچائی کے پیر وکارسمجھتی ہیں ،ان جماتوں تنظیموںاور مسلح گرروپوں کیساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہو گی جو ان کی قوت کو اکثر چیلنج کر تی رہی ہیں اور مغربی مفادات پر حملے بھی کر تی ہیں۔طالبان اور حزب اللہ دو مختلف تحریکیں ہیں ۔ جن کے مقاصد ،حکمت عملی اور عوام میں ان کی مقبولیت اور حیثیت میں بڑا فرق ہے ۔اسی طرح کے تقریباًدو درجن گروپ ہیں جومشرق وسطی اور ایشیائی خطے میں سر گرعمل ہیں۔ان تمام تنظیموں کو مغرب شک نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق یا بات چیت پسند نہیں کی جاتی ۔امریکی اور یورپی دباﺅ کے تحت ،ان ممالک کی حکومتیں جن میں یہ گروپ سر گرم ہیں بھی اب ان سے مذ اکرات نہیں کرتیں حالانکہ ان میں چند گروپ عوام میں اچھی خاصی مقبولیت رکھتے ہیں۔ مذہبی گروپ، سیاسی جماعتیں،مسلح گروپ ،قبائلی گروپ ،آزادی پسند گروپ ،روایتی طوار پرامریکہ کے زیر اثرحکومتیں ،ان کو قابل ذکر اہمیت نہیںدیتی ۔خود ساختہ عالمی ترقی پسندی کے دعوے دار ان گروپوں سے مذاکرات کیلئے تیا ر نہیں ہوتے ۔وہ اپنے اس موقف سے سے ہٹنے کیلئے تیا ر نہیں کہ اگر یہ تمام مغرب مفالف تنظیمیں جس وقت تک اپنے طرز عمل کو تبدیل نہیں کر تیں ،امریکہ دوست حکومتوں اور امر یکی مفادات کیخلاف کاروائیاں روکنا ہو نگی ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکہ مخالف اسلامی تنظیموں کے بارے میں مغرب کی وہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے جس کے تحت اسلامی تنظیموں کا بائیکاٹ کیا جاتاہے ۔ماضی کا سب سے اہم سیاسی سبق یہ ہے کہ پابندیوں اور دھمکیوں کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے ۔امریکہ اپنی تمام طاقت اور وسائل کے باوجود ان امریکہ مخالف تنظیموں کے طرز عمل کو تبدیل نہیں کر سکا۔حماس ،حزب اللہ ،شام اور ایران کی پایسیوں کیخلاف امریکہ ،یورپی یو نین ،اسرائیل اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کو نسل نے بڑی کوششیں کی لیکن یہ سب امریکی دباؤ کے باوجود اپنی پالیسیوں پر سختی سے کاربند ہے ۔وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ پابندیوں اور دھمکیوں کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے ،اب امریکہ اور اس کے اتحا دیوں کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرروت ہے جو باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے حصول پر مبنی ہوں۔ نئی امریکی انتظامیہ نے جو اشارے دئیے ہیں ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی حکومت ان تمام اسلامی تنظیموں کیساتھ براہ راست رابطوں پر غور کررہی ہے جن کو اکیلا کرنا اور ان کی طرف دباﺅ ڈالنا روایتی طورپر امریکی پالیسی رہی ہے۔امریکی صدر باراک اوبامہ نے خود اس بات کی تصدیق کی ہے کہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے اصولوں پر مبنی اقدامات پر غور کیا جارہا ہے ،اس بات سے امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں شام اورایران کیساتھ براہ راست مذاکرات کا آغاز ہوگا ۔اگرچہ امریکہ اوربرطانیہ کے روئیے میں تبدیلی خوش آئند ہے لیکن خدشہ ہے کہ امریکہ اور مغربی یورپ میںان لوگوںکی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو اس کی مخالفت کر ینگے ۔۔ان مخالفین کو استدلال ہو سکتا ہے کہ پہلے کچھ عرصے کیلئے کی پالیسی اختیار کی جائے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ گروپ مثبت سیاسی مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہیں اور کیا وہ مستقبل میں اپنا راستہ تبدیل کر سکیں گے ۔ اس روئیے کی بنیاد یہ ہے کہ مغرب مخالف تنظیموں اور ملکوں سے آپ صرف اس وقت ہی اچھائی کی تو قع کر سکتے ہیں ،جب آپ ان کے ساتھ اس کا سلوک کریں ،جیسے آپ کسی جانور کے ساتھ کر تے ہیں جس کوآپ تربیت دے رہے ہوتے ہیں ،اس روران آپ جانور کو مارتے ہیں اور پھر کھانے کو دیتے ہیں تاکہ وہ آپ کی ہدایات پر عمل کرے۔
"Carrot and sticks" پالیسی ،اسی پرانی پالیسی سے تھوڑی سی مختلف ہے جس میں دھمکیاں ، حملے ، اقتصادی پابندیاں اور حکومتوں کی تبدیلی ،بذریعہ فوجی مداخلت ہوتی تھی ،یہ حکمت عملی بھی ناکام ہو گی جس طرح پرانی حکمت عملی ناکام ہو ئی کیونکہ اس حکمت عملی کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا طرز عمل،جائز ،درست اور فراخدلی پر مبنی ہے ،انہیں آفاقی حق حاصل ہے کہ وہ جو بھی اصول اورضابطے وضع کریں ،دوسروں کو اس پر ہر صورت عمل کرنا چاہیے ۔امریکہ اور بر طانیہ کی طرف سے حماس ،حزب اللہ اور طالبان کےساتھ بات چیت کے بیانات بڑے خوش آئند ہیں اگر ان کے درمیان براہ راست رابطے شروع ہو تے ہیں تو یقینا اس کے مثبت نتائج نکلیں گے ۔ضرروت اس امر کی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پرانی ناکام پالیسیوں کو جاری رکھنے پر اسرار نہ کریں اگر وہ مشرق وسطیٰ اورافغانستان میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں ۔تو انہیں اپنے رویئے میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔ان ممالک میں قیام امن سے نہ صرف ان ممالک کے حالات میں بہتری آئیگی بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مشکلات بھی کافی حد تک کم ہونگی۔
اسلام آباد ٹائمز میں ۲۰ مارچ ۲۰۰۹ کو شائع ہوا
"Carrot and sticks" پالیسی ،اسی پرانی پالیسی سے تھوڑی سی مختلف ہے جس میں دھمکیاں ، حملے ، اقتصادی پابندیاں اور حکومتوں کی تبدیلی ،بذریعہ فوجی مداخلت ہوتی تھی ،یہ حکمت عملی بھی ناکام ہو گی جس طرح پرانی حکمت عملی ناکام ہو ئی کیونکہ اس حکمت عملی کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا طرز عمل،جائز ،درست اور فراخدلی پر مبنی ہے ،انہیں آفاقی حق حاصل ہے کہ وہ جو بھی اصول اورضابطے وضع کریں ،دوسروں کو اس پر ہر صورت عمل کرنا چاہیے ۔امریکہ اور بر طانیہ کی طرف سے حماس ،حزب اللہ اور طالبان کےساتھ بات چیت کے بیانات بڑے خوش آئند ہیں اگر ان کے درمیان براہ راست رابطے شروع ہو تے ہیں تو یقینا اس کے مثبت نتائج نکلیں گے ۔ضرروت اس امر کی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پرانی ناکام پالیسیوں کو جاری رکھنے پر اسرار نہ کریں اگر وہ مشرق وسطیٰ اورافغانستان میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں ۔تو انہیں اپنے رویئے میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔ان ممالک میں قیام امن سے نہ صرف ان ممالک کے حالات میں بہتری آئیگی بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مشکلات بھی کافی حد تک کم ہونگی۔
اسلام آباد ٹائمز میں ۲۰ مارچ ۲۰۰۹ کو شائع ہوا
دوسرا قدم
ناکام ریاست کے شہری دہشت گرد،مذہبی جنونی دوسرے ممالک میں دہشت گرد ی کروانے والے ان پڑھ جاہل قرار دئےی جانے والے پاکستان کے غیور عوام نے 16 مارچ2009ءکو ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ نہتے عوام نے ایک آمر کے غیر آئینی اقدام کے پر امن جدوجہد کے ذریعے بحا ل کروالیا ۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ سنہر ی حروف میں لکھا جائے گا ۔پاکستان کی تاریخ کا دوسرا واقعہ ہے جو ہمشہ زندہ رہے گا۔ پہلا قیام پاکستا ن تھا ۔جس طرح اس وقت برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت پر دل کی گہرایئوں سےیقین کیا تھا کہ منزل سے ہمکنا ر کریں گے اور ان کے مفادات پر کوئی سعودے بازی نہیں کریں گے ۔اسی طرح پاکستا ن کی عوام نے مغرول چیف جسٹس اور وکلاء تحریک پر اعتماد کیا ،جب وکلاء تحریک شروع ہوئی تو دونوں بڑی جماعتوں کے راہمنا ملک سے باہر تھے جن مشکل حالات میں وکلاء نے آمر کے غیر آئینی اقدامات کو چیلنج کیا وہ بذات خود انکی اپنے موقف سے گہری لگن کی نشاندہی کرتی ہے ۔پاکستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ وکلاء نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔پہلی مرتبہ قائد اعظم کی قیادت میں اور ان چیف جسٹس اور ان کے رفقاکار کی قیادت میں ۔ پاکستا ن کے عوام وکلاء برداری ،پاکستان کی تمام سان سی جماعتیں ہر وہ فرد جو اپنے دل میں پاکستا ن کے لئے درد رکھتا ہے آج مبارک باد کا مستحق ہے ۔جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کی بحالی دوسرا قدم ہے ، پہلا قدم قیام پاکستان تھا ۔
اس سمت کی جانب جس کا خواب علا مہ اقبال اور قائداعظم نے دیکھا تھا ،62سال کے بعد درست سمت یہ ہما را دوسراقدم ہے ۔اب بحیثیت قوم ہما ری ذمہ داری ہے کہ ہمارا یہ سفر جاری رہے ۔گو چیف جسٹس اور ان کے ساتھ دوسرے بر طرف شدہ ججوں کی بحالی ،پاکستانی عوام کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس کے بعد ہم نے آرا م سے نہیں بیٹھ جانا بلکہ اب ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرروت ہوگی۔
بعض حکومتی ارکان نے پوری کوشش کی کہ ملک مں افرداتفری کی کیفیت پیدا ہو ۔ سڑکیں ،پل،گلیاں بند کرنے سے عوام کوکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان افراد کا ایجنڈا کیا تھا اس بارے میں کوئی تحقق ضررو ہونی چاہے ۔ ایک قانون دان کے ہاتھوں قیام پذیر ہونے والے ملک میں آئین وقانون کی فتح یابی کی مثالیں اس سے پہلے ہماری تاریخ میں بہت کم ہیں ۔اس فیصلے سے جہاںملک وبیرون ملک پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا ۔وہاں پر مستقبل میں عدلیہ بہتر طریقے سے حکومت کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگی۔
چیف جسٹس ودیگر ججوں کی بحالی سے پاکستان کے حکمران طبقوں کو ایک طرف قانون کے سامنے سر جھکانے کی عادت پڑسکتی ہے دوسری طرف سیاستدانوں کو بھی یقینا یہ ترغیب مل سکتی ہے کہ سیاست میں قانون اور اصولوں کی پاستداری ان کو کامیابی کو کامیابی راستے پر ڈال سکتی ہے اس طرح عوام میں ان کی عزت و وقار میں اضافے کا سبب بنے گی۔وکلاء اور عوام کی اس جدوجہد کی وجہ سے ایک اداارے کے طور پرعدلیہ یقینا مضبوط ہوگی امید رکھی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں اعلیٰ عدلیہ ہر قسم کے آمرروں اور ہر ایسے فرد و ادارے کے سامنے ڈٹ کرکھڑی ہوگی ۔جو آئین اور قانون کو موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی سے موڑنے کی کوشش کریں گے۔
اس فیصلے سے ایک بات ضررو واضع ہوئی ہے کہ آئند ہ مملکت خداداد پاکستان میں ،سیاست کے نام پر جھوٹ نہیں بولا جا سکے گا ۔قانون کی حکمرانی ہوگئی۔
اب ہمارے سیاسی رہنماؤں پر پہلے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر مستقبل میں بھی وہ اسی بالغ نظری کا مظاہرہ کریں تو ملک کے تمام شبعوں میں استحکام لایا جا سکتاہے ۔
پیپلزپارٹی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان رابطے دوبارہ شروع ہوچکے ہیں ۔امید کی جاسکتی ہے کہ مرکز اور پنجاب میں دونوں سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں گئیں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک کے حالات میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اتفاق میں برکت ہے اس کی صداقت پرکسی کو بھی شک نہیں ہو سکتا ، عدلیہ کی بحالی کی سب سے بڑی وجہ وہ مکمل عوامی حمایت تھی ۔جو وکلاء تحریک کو شروع سے لے کرآخر تک حاصل رہی ۔60 سال کی محرومو ں اور مایوسوںں نے اس تحریک کو زندہ رکھنے مں اہم کردار ادا کیا اس عظم الشان کامیابی کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ تما م سیا سی ومذہبی جماعتیں یہ عہد کرلیں کہ ملکی مفاد پر وہ کوئی سعودے بازی نہیں کرےگی۔کسی امر کے ہاتھ مضبوط نہیں کریں گی ۔کسی غیر آئینی اقدام کی ،چاہے وہ کوئی بھی کرے ،حمایت نہیں کریں گی۔ تو انہیں یہ یقین رکھنا چاہےکہ عوام کی طاقت ہمیشہ ان کے ساتھ ہوگی۔
یو م قرار داد پاکستان سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کی بحالی انشاءاللہ پا کستان میں اداروں کی خود مختاری اور مضبوطی کا باعث ہوگی۔
اسلام آباد ٹائمز میں ۱۷ مارچ ۲۰۰۹ کو شائع ہوا
اس سمت کی جانب جس کا خواب علا مہ اقبال اور قائداعظم نے دیکھا تھا ،62سال کے بعد درست سمت یہ ہما را دوسراقدم ہے ۔اب بحیثیت قوم ہما ری ذمہ داری ہے کہ ہمارا یہ سفر جاری رہے ۔گو چیف جسٹس اور ان کے ساتھ دوسرے بر طرف شدہ ججوں کی بحالی ،پاکستانی عوام کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس کے بعد ہم نے آرا م سے نہیں بیٹھ جانا بلکہ اب ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرروت ہوگی۔
بعض حکومتی ارکان نے پوری کوشش کی کہ ملک مں افرداتفری کی کیفیت پیدا ہو ۔ سڑکیں ،پل،گلیاں بند کرنے سے عوام کوکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان افراد کا ایجنڈا کیا تھا اس بارے میں کوئی تحقق ضررو ہونی چاہے ۔ ایک قانون دان کے ہاتھوں قیام پذیر ہونے والے ملک میں آئین وقانون کی فتح یابی کی مثالیں اس سے پہلے ہماری تاریخ میں بہت کم ہیں ۔اس فیصلے سے جہاںملک وبیرون ملک پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا ۔وہاں پر مستقبل میں عدلیہ بہتر طریقے سے حکومت کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگی۔
چیف جسٹس ودیگر ججوں کی بحالی سے پاکستان کے حکمران طبقوں کو ایک طرف قانون کے سامنے سر جھکانے کی عادت پڑسکتی ہے دوسری طرف سیاستدانوں کو بھی یقینا یہ ترغیب مل سکتی ہے کہ سیاست میں قانون اور اصولوں کی پاستداری ان کو کامیابی کو کامیابی راستے پر ڈال سکتی ہے اس طرح عوام میں ان کی عزت و وقار میں اضافے کا سبب بنے گی۔وکلاء اور عوام کی اس جدوجہد کی وجہ سے ایک اداارے کے طور پرعدلیہ یقینا مضبوط ہوگی امید رکھی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں اعلیٰ عدلیہ ہر قسم کے آمرروں اور ہر ایسے فرد و ادارے کے سامنے ڈٹ کرکھڑی ہوگی ۔جو آئین اور قانون کو موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی سے موڑنے کی کوشش کریں گے۔
اس فیصلے سے ایک بات ضررو واضع ہوئی ہے کہ آئند ہ مملکت خداداد پاکستان میں ،سیاست کے نام پر جھوٹ نہیں بولا جا سکے گا ۔قانون کی حکمرانی ہوگئی۔
اب ہمارے سیاسی رہنماؤں پر پہلے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر مستقبل میں بھی وہ اسی بالغ نظری کا مظاہرہ کریں تو ملک کے تمام شبعوں میں استحکام لایا جا سکتاہے ۔
پیپلزپارٹی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان رابطے دوبارہ شروع ہوچکے ہیں ۔امید کی جاسکتی ہے کہ مرکز اور پنجاب میں دونوں سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں گئیں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک کے حالات میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اتفاق میں برکت ہے اس کی صداقت پرکسی کو بھی شک نہیں ہو سکتا ، عدلیہ کی بحالی کی سب سے بڑی وجہ وہ مکمل عوامی حمایت تھی ۔جو وکلاء تحریک کو شروع سے لے کرآخر تک حاصل رہی ۔60 سال کی محرومو ں اور مایوسوںں نے اس تحریک کو زندہ رکھنے مں اہم کردار ادا کیا اس عظم الشان کامیابی کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ تما م سیا سی ومذہبی جماعتیں یہ عہد کرلیں کہ ملکی مفاد پر وہ کوئی سعودے بازی نہیں کرےگی۔کسی امر کے ہاتھ مضبوط نہیں کریں گی ۔کسی غیر آئینی اقدام کی ،چاہے وہ کوئی بھی کرے ،حمایت نہیں کریں گی۔ تو انہیں یہ یقین رکھنا چاہےکہ عوام کی طاقت ہمیشہ ان کے ساتھ ہوگی۔
یو م قرار داد پاکستان سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کی بحالی انشاءاللہ پا کستان میں اداروں کی خود مختاری اور مضبوطی کا باعث ہوگی۔
اسلام آباد ٹائمز میں ۱۷ مارچ ۲۰۰۹ کو شائع ہوا
Good Wars, Just Wars, Holy Wars!!!
"Next the statesmen will invent cheap lies, putting the blame upon the nation that is attacked, and every man will be glad of those conscience-soothing falsities, and will diligently study them, and refuse to examine any refutations of them; and thus he will by and by convince himself that the war is just, and will thank God for the better sleep he enjoys after this process of grotesque self-deception." Mark Twain. The Mysterious Stranger 1916.
App ke Nazar Main?
صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے کچھ عرصے پہلے جیو ٹی وی
سے
ایک انٹرویو میں عوامی مشکلات کے بارے میں
کئے گئے سوالات کے جواب میں فرمایا۔ آپکی نظر میں : حامد میر کے سوالات جو عوام کے
مسائل اور مہنگائی اور کرپشن کے حوالے سے تھے۔ انکے جواب میں صدر محترم کا جواب
تھا۔ آپکی نظر میں، یعنی صدر محترم کی نظر میں" راوی چین ہی چین لکھتا ہے"۔
اس کی وجہ یقیناً یہی ہو سکتی ہے کہ نہ تو انہیں گیس ، بجلی ، پانی کے بل دینے
پڑتے ہیں، نہ ہی انہیں لائن میں کھڑے ہو کر سی این بھروانی پڑتی ہے ۔
عوام پینے کے صاف پانی پینے کیلئے ترس رہے ہیں آپ کی نظرمیں .
پی آئی اے آخری سانسیں لے رہی ہے۔ آپ کی نظر میں .
معصوم لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ آپ کی نظر میں.
عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ کی نظر میں.
ڈرون پہ ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
بلوچستان جل رہا ہے ۔ آپ کی نظر میں.
اغوا برائے تاوان کا دھندہ عروج پر ہے۔ آپ کی نظر میں.
ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔ آپ کی نظر میں.
نوکر شاہی ، مالک شاہی بن چکی ہے۔ آپ کی نظر میں.
سیاستدان کمیشن ایجنٹ بن چکے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
وزیر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
وزیر اعظم سزا یافتہ ہو چکے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
حکومتی اہلکاروں کے بچے اربوں کما رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
صدر ہاؤس کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ آپ کی نظر میں.
ملک میں جعلی ادویات کی بھر مار ہے۔ آپ کی نظر میں.
عوام کی نظر میں کیا ہے ۔ اس کا فیصلہ تو آنے والے انتخابات میں ہو گا۔ اگر عوام کو پچھلے پانچ سال یاد رہے تو ؟
اگرچہ حامد میر صاحب نے اتنے سوالات نہیں کئے ہم نے اپنی
طرف سے کچھ سوالات شامل کئے ہیں ۔ اس خیال سے کہ اگر صدر محترم سے یہ سوالات بھی کئے
جاتے تو اس کا جواب یقیناً یہی ہوتا۔" آپکی نظر میں "
چلیں
اب سوالات شروع کرتے ہیں۔
کھانے پینے کی اشیاء حد سے زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں۔ آپ کی نظر میں . .
سی این جی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے آپ کی نظر میں .
پٹرول مہنگا ہو چکا ہے۔ آپ کی نظر میں .
ڈیزل سونے کے بھاؤ بک رہا ہے ۔ آپ کی نظر میں .
بجلی جان کا عذاب بن چکی ہے۔ آپ کی نظرمیں .
کھانے پینے کی اشیاء حد سے زیادہ مہنگی ہو چکی ہیں۔ آپ کی نظر میں . .
سی این جی عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے آپ کی نظر میں .
پٹرول مہنگا ہو چکا ہے۔ آپ کی نظر میں .
ڈیزل سونے کے بھاؤ بک رہا ہے ۔ آپ کی نظر میں .
بجلی جان کا عذاب بن چکی ہے۔ آپ کی نظرمیں .
عوام پینے کے صاف پانی پینے کیلئے ترس رہے ہیں آپ کی نظرمیں .
سٹیل ملز تباہ ہو چکی ہے ۔ آپ کی نظر میں .
پی آئی اے آخری سانسیں لے رہی ہے۔ آپ کی نظر میں .
ریلوے کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ آپ
کی نظر میں.
کراچی قتل و غارت کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ آپ کی نظر میں.
کراچی قتل و غارت کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ آپ کی نظر میں.
معصوم لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ آپ کی نظر میں.
عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ آپ کی نظر میں.
ڈرون پہ ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
بلوچستان جل رہا ہے ۔ آپ کی نظر میں.
اغوا برائے تاوان کا دھندہ عروج پر ہے۔ آپ کی نظر میں.
ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔ آپ کی نظر میں.
نوکر شاہی ، مالک شاہی بن چکی ہے۔ آپ کی نظر میں.
سیاستدان کمیشن ایجنٹ بن چکے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
وزیر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
وزیر اعظم سزا یافتہ ہو چکے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
حکومتی اہلکاروں کے بچے اربوں کما رہے ہیں۔ آپ کی نظر میں.
صدر ہاؤس کے اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ آپ کی نظر میں.
ملک میں جعلی ادویات کی بھر مار ہے۔ آپ کی نظر میں.
عوام کی نظر میں کیا ہے ۔ اس کا فیصلہ تو آنے والے انتخابات میں ہو گا۔ اگر عوام کو پچھلے پانچ سال یاد رہے تو ؟
Friday, 3 May 2013
Talk Much?
It,s election season or one can say it,s season of promises. Every one trying to convince voters to vote for him. Now it,s up to the people of Pakistan to decide which way they want to go. They will vote for change or they make the same mistake again. It,s up to the people of Pakistan what they are going to do, elect the same people who have been plundering the resources of this country for the last 30 years or vote for those people who sincerely want to bring peace, security, prosperity in the country.
Our leader talk much and do nothing, that,s what they have been doing since long. There is a Chinese saying " To talk much and arrive nowhere is the same as climbing a tree to catch a fish". My question to my fellow Pakistanis is, what are we going to do. Will we climb a tree to catch a fish? I hope everyone knows that one can not catch a fish by climbing a tree.
So, use your head while you cast vote.
Our leader talk much and do nothing, that,s what they have been doing since long. There is a Chinese saying " To talk much and arrive nowhere is the same as climbing a tree to catch a fish". My question to my fellow Pakistanis is, what are we going to do. Will we climb a tree to catch a fish? I hope everyone knows that one can not catch a fish by climbing a tree.
So, use your head while you cast vote.
Subscribe to:
Posts (Atom)
-
امریکہ کی نظر میں جمہوریت کا مطلب ہے ؟امریکی مفادات کا تحفظ اور امریکی احکامات کی بجا آوری !! تیسری دنیا کا کوئی لیڈر ،اپنے ملک کے عوام...
-
سابق امریکی سیکٹری اف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ، امریکہ سے دشمنی آپکے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے .جبکہ امریکہ سے دوستی آپکے...
-
"Become who you are." Friedrich Nietzsche. "If everything is under control, you are going too slow." Mario Andre...