Friday 10 May 2013

بادشاہ، جمہوریت اور سسکتی عوام

الیکشن قریب ہیں اور مملکت خداداد پاکستان میں سیاسی بحث ، کشمکش ، جوڑ توڑ اور ان سے کے ساتھ ایک بے چینی بھی عروج پر ہے۔ کوئی ملک کو بچانے کی بات کر رہا  ہے تو کوئی جمہوریت کی، کوئی عوام کا بھلا کرنے کے دعوے کر رہا  ہے۔ اور کوئی بھلا کیا ہوا یاد دلا کر عوام سے با ادب ووٹ لینے کھڑا ہے۔
بازاروں ، دفتروں اور ٹی وی چینلوں پر ہر طرف الیکشن کی باتیں سنتے ہوئے ، کچھ دنوں سے اقبال کے دو شعر دماغ میں گونج رہے ہیں۔
خبر ہے سلطانی جمود کا غوغا کے شر
تو جہاں کےتازہ فتنوں سے ہی ہے باخبر
ہوں مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو اس سے کیا خطر
کیا سچ کہا ہے علامہ اقبال نے
جمہوریت کو بچانے والے اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار کہنے والے اور مفاہمت کی سیاست سے جمہوریت کو پٹری سے ڈی ریل ہونے سے بچانے والے ملوکیت کی حدوں سے بھی پار نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہنے والے جب اپنے سینکڑوں   سیکیورٹی اہلکاروں اور بیسیوں گاڑیوں کے ساتھ جب لاہور کی سڑکوں پر نکلتے ہیں تو یہ منظر دیکھ کر اکثر یوں محسوس ہوتاہے ، جیسے مہاراجہ رنجیت سنگھ اپنے لاؤ لشکر لے کر اپنے ہاتھوں سے تباہ کئے ہوئے لاہورمیں سیر کے لئے   نکلا ہو۔ اور لوگوں کو ان کی بے بسی کا یقین دلاتے ہوئے ان کا تماشہ دیکھ رہا ہو۔ جاتی عمرہ کو جانے والی سڑکیں اور سیکیورٹی یہ یقین دلاتی ہے کہ بادشاہ سلامت کی اجازت کے بغیر  پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔
جیلیں کاٹنے والے ، جانوں کی قربانی دینے والے اور ووٹ سے شاہ کی وفاداریوں کا ثبوت دینے والے آج بھی روٹی کپڑا اور مکان کے منتظر ہیں۔ لیکن اس کے برعکس آمریتوں کے سائے میں پلنے والے جیالوں  کے ساتھ اور قاتل لیگ کے قاتل نہ صرف اپنے بینک بیلنس ، گھر اور جائداد بناتے رہے بلکہ قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی ۔ وہ جس پر چاہیں اپنا نظر کرم کریں۔ شاہ کی وفاداری ناپنے کے پیمانے اور ہیں۔ یہ صرف نظریئے کے لئے قربانیاں دینے اور جیلیں  کاٹنے سے نہیں ناپی جا سکتی۔
آمریت کی بڑائی  سے کس کافر  کو انکار ہے ۔ لیکن یہ جمہوری بادشاہ کسی غریب کو اس کا حق دلانے کے وعدے کرتے ہیں، کہیں آمریت سے عوام کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ کبھی  جمہوریت کی  نوید سناتے ہیں۔ انہوں نے ان گزشتہ سالوں میں کتنے گھر روشن کئے ، کتنے چولہوں کو گرم کیا ۔ کتنے چہروں پے مسکراہٹیں بکھیری اور کتنی آوازوں کو قہقوں میں بدلا۔
افسوس کہ یہ جمہوری ذمہ داریاں پردے کے اس طرف ہی رہی اورپردے کے اس طرف ملوکیت ہی اپنا کام کرتی رہی۔
چند دنوں میں الیکشن ہیں، بادشاہ پھر عوامی نمائندے بن کر ووٹ کے لئے عوام کے سامنے موجود ہیں۔ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔
پھر اس کے بعد جو تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
تحریر: محمد سعد

No comments:

Post a Comment