Saturday 4 May 2013

مغرب مخالف تنظیموں سے رابطے نئی امریکی و برطانوں حکمت عملی

برطانوں ذرائع ابلاغ کے مطابق بر طانو ں حکومت نے حزب اللہ کے سیاسی ونگ کیساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیاہے ۔امریکی صدر نے بھی کہا ہے کہ وہ طالبان کے اس ڈھرے کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیںجو انتہا پسند نہیں ہیں،اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ طالبان میں پھوٹ ڈالی جا ئے ۔ یہ اطلاعات اگر چہ خوش آئند ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مغربی حکومتیں جو اپنے آپ کو آئین وقانون کی پابند ،انسانی حقوق کی علمبر دار ،سچائی کے پیر وکارسمجھتی ہیں ،ان جماتوں تنظیموںاور مسلح گرروپوں کیساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہو گی جو ان کی قوت کو اکثر چیلنج کر تی رہی ہیں اور مغربی مفادات پر حملے بھی کر تی ہیں۔طالبان اور حزب اللہ دو مختلف تحریکیں ہیں ۔ جن کے مقاصد ،حکمت عملی اور عوام میں ان کی مقبولیت اور حیثیت میں بڑا فرق ہے ۔اسی طرح کے تقریباًدو درجن گروپ ہیں جومشرق وسطی اور ایشیائی خطے میں سر گرعمل ہیں۔ان تمام تنظیموں کو مغرب شک نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق یا بات چیت پسند نہیں کی جاتی ۔امریکی اور یورپی دباﺅ کے تحت ،ان ممالک کی حکومتیں جن میں یہ گروپ سر گرم ہیں بھی اب ان سے مذ اکرات نہیں کرتیں حالانکہ ان میں چند گروپ عوام میں اچھی خاصی مقبولیت رکھتے ہیں۔ مذہبی گروپ، سیاسی جماعتیں،مسلح گروپ ،قبائلی گروپ ،آزادی پسند گروپ ،روایتی طوار پرامریکہ کے زیر اثرحکومتیں ،ان کو قابل ذکر اہمیت نہیںدیتی ۔خود ساختہ عالمی ترقی پسندی کے دعوے دار ان گروپوں سے مذاکرات کیلئے تیا ر نہیں ہوتے ۔وہ اپنے اس موقف سے سے ہٹنے کیلئے تیا ر نہیں کہ اگر یہ تمام مغرب مفالف تنظیمیں جس وقت تک اپنے طرز عمل کو تبدیل نہیں کر تیں ،امریکہ دوست حکومتوں اور امر یکی مفادات کیخلاف کاروائیاں روکنا ہو نگی ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکہ مخالف اسلامی تنظیموں کے بارے میں مغرب کی وہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے جس کے تحت اسلامی تنظیموں کا بائیکاٹ کیا جاتاہے ۔ماضی کا سب سے اہم سیاسی سبق یہ ہے کہ پابندیوں اور دھمکیوں کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے ۔امریکہ اپنی تمام طاقت اور وسائل کے باوجود ان امریکہ مخالف تنظیموں کے طرز عمل کو تبدیل نہیں کر سکا۔حماس ،حزب اللہ ،شام اور ایران کی پایسیوں کیخلاف امریکہ ،یورپی یو نین ،اسرائیل اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کو نسل نے بڑی کوششیں کی لیکن یہ سب امریکی دباؤ کے باوجود اپنی پالیسیوں پر سختی سے کاربند ہے ۔وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ پابندیوں اور دھمکیوں کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے ،اب امریکہ اور اس کے اتحا دیوں کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرروت ہے جو باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے حصول پر مبنی ہوں۔ نئی امریکی انتظامیہ نے جو اشارے دئیے ہیں ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی حکومت ان تمام اسلامی تنظیموں کیساتھ براہ راست رابطوں پر غور کررہی ہے جن کو اکیلا کرنا اور ان کی طرف دباﺅ ڈالنا روایتی طورپر امریکی پالیسی رہی ہے۔امریکی صدر باراک اوبامہ نے خود اس بات کی تصدیق کی ہے کہ باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کے اصولوں پر مبنی اقدامات پر غور کیا جارہا ہے ،اس بات سے امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں شام اورایران کیساتھ براہ راست مذاکرات کا آغاز ہوگا ۔اگرچہ امریکہ اوربرطانیہ کے روئیے میں تبدیلی خوش آئند ہے لیکن خدشہ ہے کہ امریکہ اور مغربی یورپ میںان لوگوںکی اچھی خاصی تعداد موجود ہے جو اس کی مخالفت کر ینگے ۔۔ان مخالفین کو استدلال ہو سکتا ہے کہ پہلے کچھ عرصے کیلئے کی پالیسی اختیار کی جائے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ گروپ مثبت سیاسی مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہیں اور کیا وہ مستقبل میں اپنا راستہ تبدیل کر سکیں گے ۔ اس روئیے کی بنیاد یہ ہے کہ مغرب مخالف تنظیموں اور ملکوں سے آپ صرف اس وقت ہی اچھائی کی تو قع کر سکتے ہیں ،جب آپ ان کے ساتھ اس کا سلوک کریں ،جیسے آپ کسی جانور کے ساتھ کر تے ہیں جس کوآپ تربیت دے رہے ہوتے ہیں ،اس روران آپ جانور کو مارتے ہیں اور پھر کھانے کو دیتے ہیں تاکہ وہ آپ کی ہدایات پر عمل کرے۔
"Carrot and sticks" پالیسی ،اسی پرانی پالیسی سے تھوڑی سی مختلف ہے جس میں دھمکیاں ، حملے ، اقتصادی پابندیاں اور حکومتوں کی تبدیلی ،بذریعہ فوجی مداخلت ہوتی تھی ،یہ حکمت عملی بھی ناکام ہو گی جس طرح پرانی حکمت عملی ناکام ہو ئی کیونکہ اس حکمت عملی کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا طرز عمل،جائز ،درست اور فراخدلی پر مبنی ہے ،انہیں آفاقی حق حاصل ہے کہ وہ جو بھی اصول اورضابطے وضع کریں ،دوسروں کو اس پر ہر صورت عمل کرنا چاہیے ۔امریکہ اور بر طانیہ کی طرف سے حماس ،حزب اللہ اور طالبان کےساتھ بات چیت کے بیانات بڑے خوش آئند ہیں اگر ان کے درمیان براہ راست رابطے شروع ہو تے ہیں تو یقینا اس کے مثبت نتائج نکلیں گے ۔ضرروت اس امر کی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی پرانی ناکام پالیسیوں کو جاری رکھنے پر اسرار نہ کریں اگر وہ مشرق وسطیٰ اورافغانستان میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں ۔تو انہیں اپنے رویئے میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔ان ممالک میں قیام امن سے نہ صرف ان ممالک کے حالات میں بہتری آئیگی بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مشکلات بھی کافی حد تک کم ہونگی۔
اسلام آباد ٹائمز میں ۲۰ مارچ ۲۰۰۹ کو شائع ہوا

No comments:

Post a Comment