Saturday 4 May 2013

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت

ساری دنیا میں بہت سے ایسے تہوار منائے جاتے ہیں ۔جو اگرچہ بہت مشہور معروف ہیں ۔ لوگ جو ق در جوق ان کو مناتے جا رہے ہیں۔ لیکن انکی حقیقت کے بارے میں لوگوں کو کچھ معلوم نہیں ۔کچھ تہوار ایسے ہیں ،جو مغربی ممالک میں منا ئے جاتے ہیں ۔ لیکن آہستہ آہستہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ان کو بلاسوچے سمجھے منانا شروع کر دیا ہے۔ ذائع ابلاغ کی ترقی نے بھی اس میں بڑا کر دار ادا کیا ہے۔ ایک دہائی پہلے پاکستان مین کوئی بھی شخص ویلن ٹائن سے واقف نہ تھا ۔ اب یہ حالت ہے کہ اخبارات اس دن خاص ایڈیشن شائع کرتے ہیں۔ ٹی وی ، چینلز خصوصی پروگرام نشر کرتے ہیں ۔
ویلن ٹائن ڈے منا نے کی ابتداء1797 میں برطانیہ سے ہوئی ۔ پیسہ کمانے کی ہوس نے بھی اس کو پھیلانے میں اہم کرداکسی نے آج تک یہ کوشش نہیں کی کہ اس کے بارے میں حقیقت حا ل بیان کرے۔ سینٹ ویلنٹائن صاحب کون تھے ،اور یہ دن کیوں منایا جاتا ہے۔ نام سے معلوم ہوتا ہے کہ سینٹ صاحب شاہد کوئی عیسائی رہے ہوں ،لیکن یہ پتہ نہیں کی کس زمانے میں تھے۔ کونسی ایسی خصوصیت تھی ،جسکی بنیاد پران کے نام پر دن منا یا جاتا ہے۔عشق و محبت کا اس سینٹ (Saint) سے کیا تعلق ہے ۔
مغربی تہذیب میں بہت سی شخصیات ویلن ٹائن کے نام سے مشہور ہیں ۔ رومنوں کے عیسائی مذہب قبول کرنے سے پہلے وہ مختلف تہوار بھی مناتے تھے،جن میں ایک لپریکس کا تہوار بھی تھا ۔ جوکہ وسط جنوری سے وسط فرروی کے درمیان منایا جاتا تھا ۔ قدیم یونانی دیو مالائی کہانیوں میں مشہور تھا کہ اس دن دیوتا زیس اور دیوی ہیرا کی مقدس شادی ہوئی تھی۔ قدیم روم میں 13 فروری سے15 فرروی تک افزائش نسل کا دن منایا تھا۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب رومنوں نے عیسائیت قبول کی تو پادری صاحبان نے وحشی اور جاہل رومنوں کے تہواروں کو عیسائیت سے ہم آہنگ کرنے کے لئےان کے تہواربھی عیسائیت میں شامل کرلئے۔ جس طرح 25دسمبر کو کر سمس کا دن قرار دیاگیا ، حالانکہ جدید تحقیق سے ثابت ہوتا ہے .کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام دسمبر میں نہیں ،بلکہ ستمبر میں پیدا ہوئے تھے۔
تاریخی مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی تمام اقوام ویلن ٹائن ڈے کی طرح کا کوئی نہ کوئی دن مناتی ہیں سوائے ،عربوں اور افریقی قبائل کے۔
حضرت نوعؑ کے طوفاں کے بعد انسانی تہذیب کی ابتدا د جلہ اور  فرات کے درمیانی  علاقے سے ہوئی ۔حضرت ابراہیم ؑ بھی اسی خطہ میں پیدا ہوئے۔جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے شرک اور ظلم سے مجبور ہو کر ہجرت کی ،اسی طرح نمرود کے زمانے میں بہت سے قبائل نے بھی اسی خطے سے یورپ کی طرف ہجرت کی، لیکن وہ لوگ اپنے ساتھ اپنے عقائد اور رسوم بھی ساتھ لے گئے۔
آل نمرود بت پرستی ، سورج، چاند ، دیوی ، دیوتاوں، جانوروں، پجاری اور آل ابراہیم ؑ، وحدانیت ، ایک اللہ کی عبادت ، برابری ، حسن خلق ، روادری ، ایما ن ومساوات کے ماننے والے ، ایک طرف آگ کے پجاری جبکہ دوسری طرف حق کے آگے سر جھکانے والے،ان دو نظریات کے درمیان جنگ ہزروں سالوں سے جاری ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ عیسائی ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔رسالہ (پلین ٹروتھ) مسڑ ہر من ایک امریکی ہیں ،وہ لکھتے ہیں کہ سینٹ صاحب کوئی عیسائی نہ تھے۔ نہ معلوم کیوں عیسائی دنیا نے ان کا دن منانا شروع کیا اور انہیں پوجنے لگے۔
مسڑ ہر من لکھتے ہیں کہ کسی عیسائی پادری سے پوچھوکہ سینٹ ویلن ٹائن کون تھے ،یہ کب اور کہاں پیدا ہوئے اور عیسائیت کے لئے ان کی کیا خدمات تھیں ،تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے گا ، یا 14 فرروی کو نو جوان مرد اور عورتیں پان کی شکل کا ایک دل جو تیر سے چھیدا ہو تا ہے ۔ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور اس دن کس بات کی اتنی خوشی منا ئی جا تی ہے ۔ جبکہ اس رسم کا انجیل مقدس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
وہ آگے لکھتے ہیں کہ لپریکس اور ویلنٹائن کے معنی بہادر شکاری ، خونخوار اور خوفناک کے ہیں ۔ جبکہ سینٹ (ولی) کو کہتے ہیں،پس ایسا ولی کون ہو سکتا ہے ۔اس کا جواب ہم یونانی دیو مالائی داستانوں میں تلاش کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
یونانی اسے پیٹریان کہتے ہیں ۔ بابلی زبان میں یہ پدربعل ہے(یعنی سورج کا بیٹا ) بعل کا ذکر انجیل مقدس میں بھی کہی مرتبہ آیا ہے ۔اس دیوتا کی پوجا نمرود نے شروع کی تھی ، نمرود کو شیر دل اور خونخوار سمجھا جاتا تھا ۔اس کی قوم نے اس کے مجسمے شیر اور بھیٹر ئیے کی شکل میں بنائے۔ سر زمین بابل و نینوا  میں یہ شکلیں غاروں اور چٹانو ں میں آج بھی کندہ ہیں ۔ نمر ود بد چلن اور بد کردار تھا ۔وہ دوسروں کی بہو بیٹیوں سے حرام کاری کرتا ،بلکہ اپنی ماں اور بہن کو بھی نہ چھوڑتا تھا ۔ اقوام عالم میں بد چلنی کا رواج اسی کی خرمستیوں    کا مرہون
منت تھا .  یہی نمرود کہیں لپریکس ہے کہیں سینٹ ویلیٹائن ،کہیں وشنو                                        
اور کہیں سانتا کلاز (پنجوں والا پیر) دل کے پا ن نما نشان میں اسی عشق و محبت کی طرف اشارہ ملتا ہے ،جسکی  اس نے بنیا د ڈالی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نمرود نے آگ کی پوجا کر نے  کے لئے بڑے بڑے آتش کدے بنوائے ۔خاص موقعوں پر وہ  شہرکی آبادی کو ترغیب دیتا اور انہیں   آپس  میں   بیویا ں بد لنے پر مجبورکرتا ۔ جو بھی آتش کدے میں آتا ۔ نذرانے پیش کرنے کے بعد ان کا فر ض تھا کہ بد کاری بھی کریں،اس مقصد کے لئے آتش کدوں کے ساتھ عمارتیں بھی ہوتی تھیں۔
اسی طرح کے ایک خاص موقع پر نمرود نے اپنی ماں ایسڑا ,  یا اشطور کے ساتھ بھی بد کاری کی ،جس سے وہ حاملہ ہوگئی ۔ اس ناجائز اختلاط کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہو ا ۔اس کا نام کیوپڈ رکھا گیا ، جس کے معنی ہیں ۔ خواہش طلب ،یا عشق کا دیوتا
روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابل پر کسی دوسری قوم نے حملہ کردیا۔ اور شہرکو تاراج کرڈالا ،نمرود بابل چھوڑکر بھاگ گیا۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد نمرود کا گھوڑا واپس آگیا  مگر نمرود کا کچھ پتہ نہیں چل سکا ۔ اسکی ماں ایسڑ, یا اشطور نے جوکہ نمرود کے بیٹے کی بھی اب ماں بن چکی تھی یہ مشہور کر دیا کہ نمرود کسی رات اسی طرح خاموشی سے واپس آ جائے گا جس طرح غائب ہوا ہے۔ پھراسی طرح امن وامان اور عیش ومسرت کا دور دورہ ہوگا ۔ جس طرح نمرود کے دور میں تھا- چنانچہ بابل کے لوگ اس گھوڑے کو لیکر گلی گلی ،کوچہ کوچہ ،پھر نے اور اعلان کرنے لگے ۔ کہ بادشاہ نمرود کا گھوڑا واپس آگیا ہے ۔ کسی د ن اس کا سوار بھی واپس آجائے گا ۔پس انتظار کرو۔ چنانچہ آریائی نسل کی قومیں ہزروں سالوں  سے    اس کی واپسی کا انتظار کرتی رہی ہیں ۔ اورہر سا ل اس فرار اور واپسی کی تمثیل بطور یادگارپیش کرتی ہیں ۔ اور لطف کی بات ہے کہ عیسائی ہونے کے بعد بھی یہ اپنے قدیم مربی کونہ بھولے ۔ بس اتنی تبدیلی قبول کر لی کہ اب نمرود کے نام کے بجائے اسے شیر دل ولی یا نخوار والی (سینٹ ویلن ٹائن ) کہہ دیتے ہیں۔
ہمارے اربا ب اقتدار ،مذہبی رہنما اور معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے سے  ہماری گزارش ہے کہ اپنا اپنا فر ض ادا کریں۔ قو م کے نوجونوں کو حقائق سے آ  گاہ  کریں تاکہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرسکیں۔ کیا ہم ہدایت پانے کے بعد بھی اصنام پرستوں،بدکاروں کے تہوار مناتے رہیں گے؟

No comments:

Post a Comment