Saturday 4 May 2013

دوسرا قدم

ناکام ریاست کے شہری دہشت گرد،مذہبی جنونی دوسرے ممالک میں  دہشت گرد ی کروانے والے ان پڑھ جاہل قرار دئےی جانے والے پاکستان کے غیور عوام نے 16 مارچ2009ءکو ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ  ہے کہ نہتے عوام نے ایک آمر کے غیر آئینی اقدام کے پر امن جدوجہد کے ذریعے بحا ل کروالیا ۔دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ سنہر ی  حروف میں لکھا جائے گا ۔پاکستان  کی تاریخ کا دوسرا واقعہ ہے  جو  ہمشہ  زندہ رہے گا۔ پہلا قیام پاکستا ن تھا ۔جس طرح اس وقت برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت پر دل کی گہرایئوں سےیقین کیا   تھا کہ منزل سے ہمکنا ر کریں گے اور ان کے مفادات پر کوئی سعودے بازی نہیں  کریں گے ۔اسی طرح پاکستا ن کی عوام نے مغرول چیف جسٹس اور وکلاء تحریک پر اعتماد کیا ،جب وکلاء تحریک شروع ہوئی تو دونوں بڑی جماعتوں کے راہمنا ملک سے باہر تھے جن مشکل حالات میں وکلاء نے آمر کے غیر  آئینی اقدامات کو چیلنج کیا وہ بذات خود انکی اپنے موقف سے گہری لگن کی نشاندہی کرتی ہے ۔پاکستان کی تاریخ میں  دوسری مرتبہ وکلاء نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔پہلی مرتبہ قائد اعظم کی قیادت میں اور ان چیف  جسٹس اور ان کے رفقاکار کی قیادت میں ۔ پاکستا ن کے عوام وکلاء برداری ،پاکستان کی تمام سان سی جماعتیں ہر  وہ فرد جو اپنے دل میں پاکستا ن کے لئے درد رکھتا ہے آج مبارک باد کا مستحق ہے ۔جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کی بحالی دوسرا قدم ہے ، پہلا قدم قیام پاکستان تھا ۔
اس سمت کی جانب جس کا خواب علا مہ اقبال اور قائداعظم نے دیکھا تھا ،62سال کے بعد درست سمت یہ ہما را دوسراقدم ہے ۔اب بحیثیت قوم ہما ری ذمہ داری ہے کہ ہمارا یہ سفر جاری رہے ۔گو چیف جسٹس اور ان کے ساتھ دوسرے بر طرف شدہ ججوں کی بحالی ،پاکستانی عوام کی ایک بڑی کامیابی ہے لیکن اس  کے بعد ہم نے آرا م سے نہیں بیٹھ  جانا بلکہ اب ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرروت ہوگی۔
بعض حکومتی ارکان نے پوری کوشش کی کہ ملک مں  افرداتفری کی کیفیت پیدا ہو ۔ سڑکیں ،پل،گلیاں بند کرنے سے عوام کوکافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ان افراد کا ایجنڈا کیا تھا اس بارے میں کوئی تحقق ضررو ہونی چاہے ۔ ایک قانون دان کے ہاتھوں قیام پذیر ہونے والے ملک میں آئین  وقانون کی فتح یابی کی مثالیں اس سے پہلے ہماری تاریخ میں بہت کم ہیں  ۔اس فیصلے  سے جہاںملک وبیرون ملک پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوگا ۔وہاں پر مستقبل میں عدلیہ بہتر طریقے سے حکومت کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوگی۔
چیف جسٹس ودیگر ججوں کی بحالی سے پاکستان کے حکمران طبقوں کو ایک طرف قانون کے سامنے سر جھکانے کی عادت پڑسکتی ہے دوسری طرف سیاستدانوں کو بھی یقینا یہ ترغیب مل سکتی ہے کہ سیاست میں قانون اور اصولوں کی پاستداری ان کو کامیابی کو کامیابی راستے پر ڈال سکتی ہے اس طرح عوام میں ان کی عزت و وقار میں اضافے کا سبب بنے گی۔وکلاء اور عوام کی  اس جدوجہد کی وجہ سے ایک اداارے کے طور پرعدلیہ یقینا مضبوط ہوگی امید رکھی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں اعلیٰ عدلیہ ہر قسم کے آمرروں اور ہر ایسے فرد و ادارے کے سامنے ڈٹ کرکھڑی ہوگی ۔جو آئین اور قانون کو موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی سے موڑنے کی کوشش کریں گے۔
اس فیصلے سے ایک بات ضررو واضع ہوئی ہے کہ آئند ہ مملکت خداداد پاکستان میں ،سیاست کے نام پر جھوٹ نہیں بولا جا سکے گا ۔قانون کی حکمرانی ہوگئی۔
اب ہمارے سیاسی رہنماؤں پر پہلے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اگر مستقبل میں بھی وہ اسی بالغ نظری کا مظاہرہ کریں تو ملک کے تمام شبعوں میں استحکام لایا جا سکتاہے ۔
پیپلزپارٹی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان رابطے دوبارہ شروع ہوچکے ہیں ۔امید کی جاسکتی ہے کہ مرکز اور پنجاب میں  دونوں سیاسی جماعتیں مل کر کام کریں گئیں ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک کے حالات میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اتفاق میں برکت ہے اس کی صداقت پرکسی کو بھی شک نہیں ہو سکتا ، عدلیہ  کی بحالی کی سب سے بڑی وجہ وہ مکمل عوامی حمایت تھی ۔جو وکلاء تحریک کو شروع سے لے کرآخر تک حاصل رہی ۔60 سال کی محرومو ں اور مایوسوںں نے اس تحریک کو زندہ رکھنے مں  اہم کردار ادا کیا    اس عظم الشان کامیابی کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ تما م سیا سی ومذہبی جماعتیں  یہ عہد کرلیں  کہ ملکی مفاد پر وہ کوئی سعودے بازی نہیں  کرےگی۔کسی امر کے ہاتھ مضبوط نہیں کریں گی ۔کسی غیر آئینی اقدام کی ،چاہے وہ کوئی بھی کرے ،حمایت نہیں کریں گی۔ تو انہیں  یہ یقین رکھنا چاہےکہ عوام کی طاقت ہمیشہ  ان کے ساتھ ہوگی۔
یو م قرار داد پاکستان  سے پہلے اعلیٰ عدلیہ کی بحالی انشاءاللہ پا کستان میں اداروں کی خود مختاری اور مضبوطی کا باعث ہوگی۔

اسلام آباد ٹائمز میں ۱۷ مارچ ۲۰۰۹ کو شائع ہوا

No comments:

Post a Comment