Sunday, 22 June 2014

منزل نہیں رہنما ؟

ایم -کیو -ایم کا یہ پرانا نعرہ ہے .کہ انھیں منزل نہیں   رہنما چاہیے .یعنی  انھیں الطاف حسین  چاہیے ،منزل ملے یا نہ ملے .شائد یہی وجہ ہے کہ متحدہ کے چاہنے والے تقریبآ   30سالوں سے ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں .مہا جر سے متحدہ تک کا  سفر قتل و غارت گری  اور تباہی سے عبارت ہے .اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ متحدہ اول تا آخر الطاف حسین کی ذات ہے .
الطاف حسین ،پاکستان سے بھاگ کر برطانیہ گے تھے .انھوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ اس بنیاد پر حاصل کی تھی .کہ پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے .برطانیہ میں بیٹھ کر وہ ایک ڈان کی طرح ایم .کیو .ایم کو چلاتے رہے ہیں .بعض وجوہات کی بنا پر حکومت برطانیہ نے انھیں برطانیہ میں رہ کر متحدہ کو پاکستان میں کنٹرول کرنے اور چلانے کی اجازت دیے رکھی .
برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق ،برطانیہ میں الطاف حسین کو سیاسی پناہ دینے اور ان کی سرگرمیوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ یہ ہے .کہ متحدہ ،برطانوی انٹیلی جنس اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے .گارڈین کے مطابق ،کراچی شائد دنیا کا واحد شہر ہے .جہاں پر امریکہ نے ،برطانیہ کو انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے لیے ،آگے رکھا ہوا ہے . کراچی میں انٹیلی جنس کے حوالے سے برطانیہ کا سب سے بڑا اثاثہ متحدہ ہے .برطانوی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے گارڈین کو بتایا ،کہ متحدہ کے رہنما الطاف حسین کا لندن میں قیام ،کسی برطانوی سازش کا حصہ نہیں . بلکہ یہ ایک پالیسی ہے .
پاکستان کی کئی حکومتوں نے ماضی میں الطاف حسین کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا .لیکن برطانوی حکومتوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی .سابق وزیر آ عظم پاکستان ،محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ برطانوی حکومت سے کہا تھا .کہ انھیں کیسا لگے گا .کہ اگر کوئی شخص پاکستان میں بیٹھ کر برطانیہ میں لوگوں کو تشدد پر اکساے .
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ،برطانوی عدالتیں پچھلے بیس سالوں میں دو مرتبہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں .کہ متحدہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہے .کراچی پولیس سے تعلق رکھنے والے ایک افسر نے ٢٠١٠،میں برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ اسے کراچی میں متحدہ سے خطرہ ہے .برطانوی جج ،لارڈ بانا ٹا این نے اس پولیس افسر کو سیاسی پناہ دینے کا حکم جاری کیا تھا .انھوں نے اپنے حکم نامے میں یہ تسلیم کیا کہ متحدہ نے کراچی میں دو سو سے زائد پولیس اہلکاروں کو قتل کیا .
اس کے علاوہ ،ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کے دوران ،برطانوی پولیس کو ان کے گھر سے ایسے کاغذات ملے .جو پاکستان میں گرفتار ،متحدہ کے کارکنوں کے ان بیانات کی تائید کرتے ہیں ،کہ انھیں بھارت میں دشت گردی کی تربیت دی گئی .الطاف حسین برطانوی حکومت اور انٹیلی جنس اداروں کے لیے ایک اہم مہرہ ہیں .جب تک ان کی افادیت برقرار ہے ،برطانوی حکومت ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گی .
جس طرح ہر رات کی ایک سحر ضرور ہوتی ہے .اسی طرح الطاف حسین کی تخلیق کردہ ،ظالمانہ تاریک رات کی سحر بھی قریب ہے .جو کچھ انھوں نے ماضی میں بویا ہے . اب اس کے کاٹنے کا وقت قریب آتا جا رہا ہے .ویسے بھی متحدہ کو منزل نہیں ،رہنما چاہیے . حالات  ایسے نظر آتے ہیں ،کہ انھیں نہ تو منزل ملے گی اور نہ ہی رہنما ؟؟؟؟؟کیونکہ ا س دنیا میں ہر چیز فانی ہے ...............................

Sunday, 1 June 2014

! خود کش بمبار

کہتے ہیں .جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے -وہ ایک ہی غلطی بار بار دوہراتے چلے جاتے ہیں .وزیر اعظم پاکستان بھی آج کل ایسی ہی صورت حال سے  دوچار نظر آتے ہیں . انکی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاۓ تو ایسا نظر آتا ہے کہ انھوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا.
 وزیر اعظم پاکستان اس وقت بھی فوج اورآئی  -ایس -آئی کو نیچا دکھانے میں مصروف عمل ہیں .
.حامد میر پر قاتلانہ حملہ کے بعد .جس طرح جیو نے آئی -ایس -آئی  کے چیف کی تصویر چلا کر ان پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور مسلسل آٹھہ گھنٹے تک یہ خبر بار بار چلائی جاتی رہی . حکومت پاکستان کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اپنے ایک اہم ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف کیے جانے والے بے بنیاد الزامات کا جواب دیتی . یا جیو کی انتظا میہ سے پوچھتی کے ان کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں . ورنہ یہ کردار کشی بند کریں .اس کے بر عکس وزیر اعظم بھاگے بھاگے حامد میر کی عیادت کے لیے کراچی پہنچ   گئے .
ان کے طرز عمل سے یہ اندازہ  لگانا   مشکل نہیں کہ وزیر اعظم کے دل میں ان افراد اور اداروں کی کیا عزت ہے - جو پاکستان کی سلامتی کے لیے اپنے خون کا نذرانہ دے رہے ہیں . ایسا لگتا ہے ،جناب نواز شریف صاحب نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا . جو مشرف صاحب نے ان کے ساتھہ کیا -وہ پاکستان کے تمام دفاہی اداروں خاص کر فوج کو اس کا زمہ دار سمجتھے ہیں .وہ اپنے دل و دماغ سے ،مشرف کے ساتھہ ساتھہ ،دفاہی ادراروں کے خلاف نفرت کو ابھی تک نہیں نکال سکے .ان کا خیال ہے کہ فوج کو بے توقیر کر کے ان کے دل میں ٹھنڈک پڑھ جاۓ گی .وہ شائد یہ بھول رہے ہیں کہ فوج پاکستان کی ہے . نہ وہ مشرف کی   ذاتی فوج تھی اور نہ اب وزیر اعظم صاحب کی ذاتی فوج بن سکتی ہے .
پاکستان کی سلامتی کا سب سے اہم اور مضبوط نشان پاکستان کے دفاہی ادارے ہیں .1999کی طرح کا  اگر کوئی موقع مستقبل میں آیا . تو محترم وزیر اعظم پھر وہی فیصلہ کریں گے . جو انھوں نے ماضی میں کیا تھا .جب وہ   آ پنے تمام ساتھیوں کو چھوڑ کر خود اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب سدھار گیے تھے .اگر وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں آئین و قانون کی عملداری ہو . تو انھیں خود پہلے آئین و قانون کی پاسداری کرنی ہو گی .اپنے خاندان اور جی حضوریوں کے دائرے سےباہر بھی انھیں دیکھنا ہو گا .پاکستان میں با صلاحیت افراد کی کوئی کمی نہیں .یہ اٹھارہ کروڑ لوگوں کا ملک ہے . صرف جناب کے خاندان اور پیشہ ور چاپلوسوں کا نہیں .
آپ اگر فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں کی عادات بدلنا چا  ہتے ہیں .تو پہلے آپ کو اپنی عادتیں بدلنا ہوں گی .ورنہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے .صرف آپ جیسے لوگ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتے .؛ نواز حکومت کو کسی سیاسی یا غیر سیاسی قوت سے کوئی خطرہ نہیں .انھیں اگر کوئی خطرہ ہے . تو اپنے آپ سے ہے .کیونکہ وزیر اعظم خود کش بمبار ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟

Thursday, 22 May 2014

!!!!الطاف بھائی -انگلینڈ والے

اپنی مرضی سے جلا وطنی اختیار کرنے والے قائد تحریک الطاف بھائی خبروں میں رہنے کا گر جانتے ہیں.کبھی متناز عہ  بیانات کے زور پر ،کبھی کسی جماعت یا ادارے کی حمایت -کبھی کسی جماعت یا ادارے کی مخالفت کے ذریے ،الطاف حسین خبروں کی زینت بنے رہتے ہیں .اگر طبیعت ناساز ہو تو گھنٹوں لمبے خطابات کے سہارے اپنے کارکنوں کے ساتھ ساتھ ،سارے میڈیا کو بھی سولی پر لٹکاے رکھتے ہیں .بسا اوقات ہمدردی حاصل کرنے کے لیے رونے دوہنے سے بھی گریز نہیں کرتے .   عوام کو خوش کرنے کے لیے ،پنجابی فلموں کے ولن کی طرح بڑکیں لگانا بھی جانتے ہیں .
آج کل انھیں پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے کا بھوت سوار ہے .متحدہ کے کارکن اور لیڈر احتجاجی ریلیاں نکال رہے ہیں .ان کا خیال ہے کہ حکومت پاکستان انکے قائد کو شناختی کارڈ دینے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے .ورنہ الطاف بھائی پاکستان آنے کو تیار بیٹھے ہیں .متحدہ کے کارکن اور لیڈر شائد یہ بھول رہے ہیں . کہ الطاف حسین 1992میں خود پاکستان چھوڑ کر گے تھے .اور انھوں نے برطانوی شہریت حاصل کر رکھی ہے . اگر وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ان کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاکستانی پاسپورٹ کی کوئی ضرورت نہیں .
دوسری اہم بات یہ ہے کہ الطاف حسین برطانیہ سے کسی دوسرے ملک نہیں جا سکتے .انھوں نے ایک بار پہلے بھی برطانیہ سے جنوبی افریقہ
 جانے کی کوشش کی تھی لیکن حکومت برطانیہ نے انھیں ملک سے جانے نہیں دیا . جب تک  ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا معمہ حل نہیں ہو جاتا .الطاف حسین برطانیہ سے باہر نہیں جا سکتے .ابھی تو منی لانڈرنگ کا جن بھی بوتل سے باہر آنا ہے .قائد تحریک سے گزارش ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانا چھوڑ دیں .قانون مکافات عمل نے ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے .اب وہ اپنے انجام سے بچ نہیں سکیں گے .
الطاف حسین خوشی سے برطانوی پاسپورٹ میڈیا کو دکھاتے ہوۓ .

جمہوریت ایک نظام ؟

جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے .کہ یہ ایک ایسا نظام ہے . جس میں ہر فرد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے .ہر اس سوال کے بارے میں -جو کسی معاشرے میں سامنے آے . اور عوام کو یہ حق حاصل ہے .کہ وہ اپنی منشا و مرضی کے مطابق حکومت قائم کریں .اگر عوام یہ سمجھیں کے انکی منتخب حکومت اس منشور سے ہٹ گئی ہے .جس کی بنیاد پر اس نے ووٹ لیے تھے . تو ان کو یہ حق حاصل ہے .کہ وہ اس حکومت کو تبدیل کر دیں .
اگر آپ دنیا کی جمہوری تاریخ کا جائزہ لیں .تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہو گی . کہ ایسا جمہوری نظام انسانی تاریخ میں کبھی بھی قائم نہیں ہوا .لیکن اسکے باوجود جمہوریت ایک نظرئیے کے طور پر ساری دنیا میں مقبول ہے . بلکہ آج کے دور میں اسے ایک مذہب کی حثییت حاصل ہو چکی ہے .
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے . ایسا نظام دنیا میں کبھی قائم نہیں ہوا . اور نہ مستقبل میں ایسے نظام کے قیام کی کوئی امید ہے . دنیا کی قدیم جمہوری ریاستوں پر نظر دوڑائیں تو آپ خود یہ اندازہ کر سکتے ہیں . کہ عوام کی ایک اچھی خاصی تعداد انتخابات سے لا تعلق رہتی ہے .اور اکثریت کی حکومت کبھی بھی قائم نہیں ہوتی .دوسری اہم بات یہ ہے .کہ جب لوگوں کے ووٹوں سے کوئی حکومت قائم بھی ہوتی ہے .تو وہ حکومت عوام کی منشا کے مطابق  کام کرنے کے بجاے  .اپنے گروہی ،طبقاتی اور نظام سرمایہ داری کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوۓ  کام کرتی ہے .
کسی بھی جمہوری معاشرے (ملک )میں عوام اس لیے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں .کہ وہ حکومت میں آ کر ان کے مسائل حل کریں گے .جبکہ حقیقت اسکے بر عکس سامنے آتی ہے .برسراقتدار آنے والے -عوام کے مسائل حل کرنے کے بجاۓ .نظام سرمایہ داری کو مضبوط بنانے میں مصروف عمل ہو جاتے ہیں .دنیا کے ان تمام ممالک میں جہاں  جمہوریت (جمہوری حکومتیں ) قائم ہیں .تمام تر زور اس بات پر دیا جاتا ہے .کہ بجٹ کو کیسے متوازن کیا جاۓ .حکومتی اخراجات کو کیسے کم کیا جاۓ .حکومتی اخراجات کم کرنے کا مطلب ہوتا ہے .عوام کی فلاح کے لیے .سرمایہ خرچ کرنے کے بجاۓ .ایسی منصوبہ بندی کرنا کہ عوام کا پیسہ -عوام پر خرچ نہ ہو سکے .یعنی عوام کی دولت کو عوام تک پہنچنے سے کیسے روکا جاۓ .
اپنے ملک پاکستان کی صورت حال ہمارے سامنے ہے .آزادی سے اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں .چاہے وہ جمہوری ہوں یا آمرانہ .کسی نے بھی عوام کی فلاح کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا .ملک خداداد پاکستان میں .غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر خواص کی عیاشی کا نام جمہوریت ہے .اس میں قصور ہمارا (عوام کا  )ہے .یا ہمارے چنے ہوۓ حکمرانوں کا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

Friday, 25 April 2014

A Sane Advice!!!

"I believe that if we had and would keep our dirty, bloody, dollar soaked fingers out of the business of these [Third World] nations so full of depressed, exploited people, they will arrive at a solution of their own. And if unfortunately their revolution must be of the violent type because the "haves" refuse to share with the "have-nots" by any peaceful method, at least what they get will be their own, and not the American style, which they don't want and above all don't want crammed down their throats by Americans." - General David Shoup - Former United States Marine Commandant.

سابق امریکی مرین کمانڈر نے بڑا اچھا مشورہ دیا ہے . اگر امریکی حکومت اس پر عمل کرے تو یقیناً دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے . لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں . امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور نظام سرمایہ داری کے کرتا دھرتا ،ساری دنیا ،خاص طور پر تیسری دنیا کے قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک میں مداخلت بند نہیں کریں گے .جمہوریت  ،انسانی حقوق ،قانون کی حکمرانی ،برابری ،یہ سب نعرے ،ہاتھی کے وہ دانت ہیں .جو کھانے کے اور ،اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں .
 مثال کے طور پر ،امریکہ اور یور پ . شام میں تو جمہوریت چا ہتے ہیں ،لیکن سعودی عرب ،مصر ،کویت ،قطر ،مسقط وغیرہ میں اس کا نام لینا گوارہ نہیں . اس طرز عمل کو دوہرے;معیار کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے. لیبیا میں جمہوریت کے نام پر جو کیا گیا . اس کے ثمرات وہاں کے عوام اگلے بیس ،پچیس سال  تک ضرور بھگتے گے . امن و امان نام کی کوئی چیز وہاں موجود نہیں ،ملک عملا تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے .قتل و غارت  گری ،اغوا ،لوٹ مار  عام ہو چکی ہے . اس سے زیادہ اور جمہوریت کیا ہو سکتی ہے کہ جس کا جو دل چاہے کرے .جبکہ ملک کے وسائل غیر ملکی لوٹ کر لے جائیں .آخر ہم (عوام ) کب سمجھیں گے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

Tuesday, 22 April 2014

ہم علم سے دور کیوں ہیں ؟

محمّد رسول الله کا ایک فرمان ہے .....علم حاصل کرو ،چاہے اس کے لیے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے !!!
اگرچہ اکثر لوگ اس روایت کے ماخذ کے بارے میں الجھن کا شکار ہیں . کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس روایت کی نسبت رسول الله سے درست نہیں ہے . لیکن اس کے باوجود اس چھوٹی سی روایت نے صدیوں تک مسلمانوں کو حصول علم کی جستجو میں مصروف رکھا ہے . اور سائنسی فکر کی ترویج میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے .
اگر آج ہم اسلامی دنیا میں علم (سائنس ) کی حالت زار پر غور کریں .تو انتہائی تکلیف دہ صورت حال سامنے آتی ہے . جو علم کے علمبردار تھے وہ آج جہالت کے صحرا میں بھٹکے ہوے اونٹ کی طرح چکر کھاتے دکھائی دیتے ہیں . سائنس واچ کے مطابق ،سائنسی علوم ،تحقیق کے شعبے میں دنیا کے 20 ممالک میں اسلامی دنیا کا صرف ایک ملک شامل ہے اور وہ ملک ترکی ہے . جس کا 20 ممالک کی فہرست میں 19 نمبر ہے .
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ،کہ اسلامی ممالک میں تعلیم اور تحقیق پر کتنی توجہ دی جا رہی ہے .قدرتی وسائل سے مالا مال اسلامی دنیا اپنے وسائل ایسے کاموں پر خرچ کر رہی ہے .جس کا فائدہ نہ موجودہ نسلوں کو ہو رہا ہے اور نہ آنے والی نسلوں کو ہو گا .
ٹائمز ہائر ایجوکیشن ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ 2014  کے مطابق دنیا کی ٹاپ 100یونیورسٹیوں میں مسلم ممالک سے صرف ایک یونیورسٹی شامل ہے .یہ یونیورسٹی ترکی میں ہے . اس کا نام مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے
کیو -ایس  ٹاپ یونیورسٹی رینکنگ نے دنیا کی 500بہترین یونیورسٹیوں کی جو لسٹ جاری کی ہے .اس لسٹ میں ملاشیا کی 5،ترکی کی 3,سعودی عرب کی 3,انڈونیشیا کی 2,قازقستان کی 2,لبنان کی 1،اور پاکستان سے بھی صرف ایک یونیورسٹی (نسٹ ) شامل ہے . یعنی پچاس سے زائد اسلامی ممالک کی صرف 17یونیورسٹیاں اس لسٹ میں شامل ہیں ..  اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی دنیا میں تعلیم کا کیا حال ہے . اور اس اہم شعبے میں ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں .
ہمارا مسلۂ یہ ہے کہ ہم اپنی تمام غلطیوں ،کوتاہیوں ،خرابیوں کے لیے دوسروں کو مورود الزام ٹھرانے کے عادی بن چکے ہیں .اپنی ہر ناکامی کو ہم غیروں کی سازش قرار دیتے ہیں .ترقی کی دوڑ میں ہم دنیا سے پیچھے ہیں ، یہود کی سازش ہے . ہم پر ڈکٹیٹر مسلط ہیں ،انگریز کی سازش ہے .ہم دہشت گردی کا شکار ہیں .امریکہ کی سازش ہے ، ہم مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے  ہیں . ہندو کی سازش ہے . اگر ہمارے ملک میں سیلاب آ جا ے ، تو وہ بھی کسی غیر کی سازش ہے . یعنی ہمارا تو کوئی قصور ہی نہیں ، ہم معصوم لوگ ہیں .
ہم سازش کا سراغ لگانے میں بڑے تیز ہیں .جبکہ اسکا تدارک کرنے میں اتنے ہی نااہل ہیں .شائد یہی وجہ ہے ،ہم دنیا میں سب سے نچلے درجے پر ہیں اور دنیا میں ہماری کوئی عزت نہیں ہے .قرآن کی نظر میں ہم  اسفل سافلین ہیں ................................
قرآن کریم میں الله کا فرمان ہے .
بے شک الله کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا .جب تک وہ خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کر لے .

Tuesday, 15 April 2014

! سر سید احمد خان کا فتویٰ

ہمارا مروجہ اسلام وہ دین نہیں ہے . جو محمّد رسول الله پر نازل ہوا تھا . اور جو قرآن کریم میں محفوظ ہے .مسلمانوں نے خود اپنے لیے اپنے آباؤاجداد کی روایات ، رواج اور طور طریقوں کوایک الله کے علاوہ خدا بنا لیا ہے . انھوں نے محمّد رسول الله کے علاوہ بےشمار صوفیوں ، مجتہدوں ، اماموں اور تاریخ دانوں کو پیغمبروں  کا درجہ دے دیا ہے. انھوں نے انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو الله کے کلام ( قرآن ) جیسا درجہ دے دیا ہے . ہم ان جھوٹے  خداؤں ، جعلی پیغمبروں اور قرآنوں کو تسلیم نہیں کرتے . ہم ان تمام بتوں کو توڑنے والے ہیں . جس طرح ہمارے باپ حضرت ابراھیم علیہ سلام نے اپنے باپ آزار کے بتوں کو توڑا تھا . جب تک ہم مسلمان معجزوں اور کرامات پر ایمان لاتے رہیں گے ، ہم ایک مہذب قوم نہیں بن سکتے. (حیات جاوید ،افکار سر سید ).
سر سید احمد خان کو وفات پاۓ 116 سال گزر چکے ہیں . انھوں نے مسلمانوں کا جو نقشہ انیسوی صدی میں کھینچا تھا . وہ آج بھی ہم پر صادق آتا ہے .ہم نے یہ قسم اٹھائی ہوئی ہے ،کہ ہم نے الله کا حکم نہیں ماننا . پچھلے تین ،چار سو سالوں سے ہم جس ذلت آمیز عذاب سے دوچار ہیں .اس سے نکلنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرنی . اگر کوئی ہمیں اس عذاب سے نکالنے  اور سیدھی راہ دکھانے کی کوشش کرے تو  اس پر کفر اور شرک کے فتوے لگانے ہیں . ہمیں نیند سے جگانے کے جرم میں اگر ہو سکے تو اسے قتل بھی کرنا ہے . مسلسل کسی آنے والے کا انتظار کرنا ہے . چاہے اس انتظار میں قیامت                          ہی کیوں آ جائے . 
قرآن کریم میں الله رب العزت کا فرمان ہے .
اور ابراھیم نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی (اپنے فرزندوں سے یہی کہا ) کہ بیٹا الله نے تمھارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے . تو مرنا ہے .تو مسلمان ہی مرنا .البقرہ آیت 132.
الله نے تو ہمارے لیے دین اسلام پسند فرمایا ہے .اور ہمارا نام مسلمان رکھا ہے . لیکن ہم نے اپنے آپ کو فرقوں اور گروھوں میں تقسیم کر لیا ہے .الله کریم نے حکم دیا تھا کہ فرقوں میں نہ بٹ جانا .ہم نے الله کے حکم کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوۓ .پہلے اپنے آپ کو سنی ،شیعہ میں تقسیم کیا  . پھر حنفی ،مالکی ،شافی اور حنبلی بن بیٹھے .اس طرح ہم نے ایک الله کو چھوڑ کر ،ان اماموں کو معبود بنا لیا ہے . ایک قرآن کو پس پشت ڈال کر ان اماموں کی کتابوں کو قرآن کا درجہ دے دیا ہے .  یہی وجہ ہے کہ ہم فرقہ بندی کے عذاب کا شکار ہیں . اس عذاب سے اس وقت تک چھٹکارا ممکن نہیں جب تک ہم الله کی نازل کردہ کتاب (قرآن )کو وہ درجہ نہیں دیتے جس کا الله نے حکم دیا ہے . ہم اس وقت تک مسلمان ہی نہیں ہو سکتے جب تک ہم قرآن پر عمل نہیں کرتے .الله کریم کا فرمان ہے .
  اور جو لوگ الله کی کتاب کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ فاسق ہیں . سورہ المائدہ آیت .47.    
 جو لوگ الله کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلے نہیں کرتے .ایسے ہی لوگ کافر ہیں . سورہ المائدہ آیت .44