Monday 25 December 2017

!!!!آئین ، قانون اور ہمارے بونےدانشور

محترم کلاسرا صاحب نوکر شاہی کو زکوٹا جن کہتے ہیں .  ہم نے ان دانشوروں کو جو  آئین ، قانون کی بلا دستی کی بات صرف اس وقت کرتے ہیں . جب نواز شریف صاحب کی حمایت مقصود ہوتی ہے ... کو  قلم بیچ (بونوں ) کا نام دیا ہے .... 
دو دن پہلے محمد مالک صاحب کے پروگرام میں اسی طرح کے دو عظیم بونے شریک گفتگو تھے ....دونوں اس بات پر بڑے برہم تھے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، سندھ اور پنجاب میں اگزیکٹو کے کام میں کیوں مداخلت   کر رہے ہیں ... صوبائی اور مرکزی حکومت نے کون سا کام ، کب اور کیسے کرنا ہے ... اس کا تعین حکومتوں نے خود کرنا ہے . چیف جسٹس صاحب کو کوئی حق نہیں کہ وہ حکم جاری کریں .  اور ہسپتالوں کے دورے کریں ...
ایک صاحب جو چڑیا کو دانے ڈالنے کے ماہر ہیں . فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے . کسی بھی مہذب ، جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہوتا . عدالت عالیہ ، پارلیمنٹ کو کوئی حکم نہیں دے سکتی .   امریکہ میں تو ایسا نہیں ہوتا ؟؟؟؟؟
ہماری جناب سے گزارش ہے کہ جب آلگور اور بش جونئیر ( Al Gore vs Jeorge bush) کے درمیان 2000،کے صدارتی انتخابات میں تنا زع  پیدا    ہوا . تو سپریم کورٹ نے جارج بش کے حق میں فیصلہ دیا ... الگور نے تو کوئی واویلا نہیں کیا .. انھوں نے تو یہ نہیں کہا کہ فیصلہ کہیں اور لکھا گیا ..انھوں نے سپریم کورٹ کے ججوں پر  کوئی تنقید نہیں کی ... بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سر تسلیم خم کیا ....  موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ  ٹرمپ کے تارکین وطن کے خلاف پابندیوں کے  دو فیصلوں کو امریکی سپریم کورٹ نے مسترد کیا اور کہا کہ امریکی صدر نے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا ہے .. بلکہ اس سے پہلے ایک ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج نے امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف   حکم جاری کیا ... امریکہ میں تو کسی نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی دھمکی نہیں دی .... نہ کسی نے یہ کہنے کی جرات کی کہ سپریم کورٹ کو  اگزیکٹو کے کام میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ....
اس پروگرام میں شریک دوسرے بونے دانشور صاحب سے بھی سوال تھا ... عدلیہ کے بارے میں ،   لیکن جناب شروع ہو گے . فوج کے خلاف .... فرمایا کہ اس ملک میں پاک صاف ادارہ ایک ہی ہے ... سپریم کورٹ کو   چاہیے کہ ہر چار ، پانچ یونین کونسلوں پرایک  اڈیشنل جج اور دس ججوں پر   ایک ایک میجر اور کرنل مقرر کر دیں ... سب کچھ فوج کے حوالے کر دیں .. تو سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا .... آپ بھی عدالت عالیہ پر برہم تھے کہ انھیں حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ...  جناب نے مزید فرمایا کہ مہذب ، جمہوری ملکوں میں ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں کام کرتا ہے ... کس قانون کی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ چیف جسٹس مداخلت کریں ...
ہمارا دونوں سے سوال ہے کہ کس مہذب اور جمہوری ملک میں کوئی عدالت عالیہ سے سزا یافتہ شخص (چاہے وہ کوئی بھی ہو )  سڑکوں پر جلوس نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا ... عدالت عالیہ کے ججوں کی توہین کرتا ہے .. انکے فیصلے کو تعصب پر مبنی قرار دیتا ہے .... اپنے کارندوں سے ججوں اور انکے اہل خانہ کو دھمکیاں دلواتا ہے ...
فیصلہ قبول کرنے سے سر عام انکار کرتا ہے . فیصلے کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتا ہے ... سرکاری پروٹوکول استعمال کرتا ہے .. قوم کے پیسے سے چلنے والے اداروں اور عمارتوں کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے ... کون سا قانون ہماری صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ حکمران اور انکے گماشتے خود تو علاج کیلئے ، برطانیہ اور امریکہ جائیں . جبکہ عوام کو صحت کی معمولی سہولیات بھی میسر نہ ہوں ... ان کے بچے تو بیرون ملک تعلیم حاصل کریں .  لیکن غریب کے بچوں کیلئے ، چھت اور چار دیواری کے بغیر سکول ہوں ... ملک میں آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی تک بھی نہ میسر ہو ...غریب اور کمزور انصاف کیلئے مارا مارا پھرے ...قوم کے خزانے ذاتی تشئیر پر خرچ کیے جائیں ....
کس مہذب اور جمہوری ملک میں ایسا ہوتا ہے ؟؟؟؟   اگر پاکستان کے غریب اور بے بس عوام کے خلاف ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم   پر آپ کو کوئی اعترا ض نہیں تو پھر آپ کو عدالت عالیہ کی مداخلت پر بھی   کوئی   اعترا ض   نہیں ہونا چاہیے !!!!!

No comments:

Post a Comment