Wednesday, 27 December 2017

غالب صریر خامہ نواۓ سروش ہے

مرزا غالب کے دو سو بیسویں جنم دن پر . غالب کےچند لازوال اشعار !!!!

(نہ تھا کچھ تو خدا تھا .کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا 
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے ،تو زانو پہ دھرا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا ؟)

(میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا )

(ہم کہاں کے دانا تھے ،کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا )

(پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے 
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا )

(ہر چند ہو مشائدہ حق کی گفتگو 
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر )

(  یاد ہیں غالب تجھے وہ دن کہ وجد و ذوق میں 
زخم سے گرتا تو میں پلکوں سے چنتا تھا نمک )

(غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج 
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک )

(عشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی الفت کا رنگ 
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہاۓ ہاۓ !)

(یار سے چھیڑ چلی جاۓ اسد 
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی )

(اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب 
ہم بیا بان میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے )

(مارا زمانے نے اسداللہ خان تمیں 
وہ ولولے کہاں ،  وہ جوانی کدھر گئی )

(کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب 
شرم تم کو مگر نہیں آتی )

(بے خودی بے سبب نہیں غالب 
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے )

(آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں  خیال میں 
غالب صریر خامہ نواۓ سروش ہے )

(ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا 
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟ )

(ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن 
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے )

(عشق نے غالب نکما کر دیا 
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے )

(عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالب 
کہ لگاۓ نہ لگے اور بجھاۓ نہ بنے )

(زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے 
دیکھوں اب مر گۓ پر کون اٹھاتا ہے مجھے )

(بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا 
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا )            

(یہ مسائل تصوف !یہ ترا بیان غالب 
تجھے ہم والی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا )

(تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گۓ تھے ،پہ تماشا نہ ہوا )

(دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار اسد
غلطی کی کہ کافر کو مسلماں سمجھا )

(مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالب
یار لاۓ مرے بالیں پہ اسے ،پر ،کس وقت )



انسان اور خیالات

" انسان دیکھے جا سکتے ہیں .ٹٹولے جا سکتے ہیں تم انہیں پکڑ سکتے ہو . ان پر حملہ کر سکتے ہو اور قید کر کے ان پر مقدمہ چلا سکتے ہو اور انہیں تختہ دار پر لٹکا سکتے ہو ..
لیکن خیالات پر اس طرح قابو نہیں پایا جا سکتا -وہ نا محسوس طور پر پھیلتے ہیں نفوذ کر جاتے ہیں . چھپ جاتے ہیں اور اپنے مٹانے والوں کی نگا ہوں سے   مخفی   ہو جاتے ہیں - روح کی گہرائیوں میں چھپ کر نشو و نما پاتے ہیں . پھلتے پھولتے ہیں . جڑیں نکالتے ہیں - جتنا تم ان کی شا خیں جو بے احتیاطی کے با عث ظاہر ہو جائیں . کاٹ ڈالو گے . اتنا ہی انکی  زمین دوز جڑیں مضبوط ہو جائیں گی ".....                   ( الیگزینڈر ڈوما )      
پاکستان کے موجودہ حالات اس کے گواہ ہیں کہ عوام کی سوچ کو قید نہیں کیا جا سکتا .جب کوئی نظریہ عوام کے دل و دماغ میں جڑ پکڑ لے .تو گسے پٹے ،فرسودہ  نعروں سے اسکا سدباب نہیں کیا جا سکتا .پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ،اشرافیہ ،تمام (سیاسی ) خاندانی جماعتیں اپنی دولت ،اثرو رسوخ اور ضمیر فروش میڈیا کے مکمل تعاون کے باوجود عوام کی اکثریت کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام رہے ہیں .
پاکستان تحریک انصاف نے عمران خان کی قیادت میں عوام کو یہ باور کروا دیا ہے کہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ نظام اور اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے ہیں .وہ کبھی بھی اس نظام کو تبدیل کرنے میں نہ پہلے سنجیدہ تھے . نہ اب ہیں اور نہ کبھی مستقبل میں ہونگے . یہی وجہ ہے کہ وہ ریاستی طاقت کو اس سوچ کو کچلنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں .اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ نظام اب شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے .پاکستان کے عوام اس ظالمانہ نظام کو اپنے اتحاد اور ثابت قدمی سے ہی شکست دے سکتے ہیں .
اب تک عوام نے جس شعور کا مظاہرہ کیا ہے .وہی  اس جنگ میں کامیابی کی کنجی ہے .
کہتے ہیں کہ جب دیوتا کسی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اسے پاگل بنا دیتے ہیں .جو کچھ پاکستان میں پچھلے دو سالوں سے ہو رہا ہے .اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ پاگل پن کی انتہا  تک جا چکے ہیں .یہ نظام اب زیادہ عرصہ نہیں چلے گا .ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر  تر جیح دینے والوں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئیے .

Monday, 25 December 2017

!!!!آئین ، قانون اور ہمارے بونےدانشور

محترم کلاسرا صاحب نوکر شاہی کو زکوٹا جن کہتے ہیں .  ہم نے ان دانشوروں کو جو  آئین ، قانون کی بلا دستی کی بات صرف اس وقت کرتے ہیں . جب نواز شریف صاحب کی حمایت مقصود ہوتی ہے ... کو  قلم بیچ (بونوں ) کا نام دیا ہے .... 
دو دن پہلے محمد مالک صاحب کے پروگرام میں اسی طرح کے دو عظیم بونے شریک گفتگو تھے ....دونوں اس بات پر بڑے برہم تھے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، سندھ اور پنجاب میں اگزیکٹو کے کام میں کیوں مداخلت   کر رہے ہیں ... صوبائی اور مرکزی حکومت نے کون سا کام ، کب اور کیسے کرنا ہے ... اس کا تعین حکومتوں نے خود کرنا ہے . چیف جسٹس صاحب کو کوئی حق نہیں کہ وہ حکم جاری کریں .  اور ہسپتالوں کے دورے کریں ...
ایک صاحب جو چڑیا کو دانے ڈالنے کے ماہر ہیں . فرماتے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے . کسی بھی مہذب ، جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہوتا . عدالت عالیہ ، پارلیمنٹ کو کوئی حکم نہیں دے سکتی .   امریکہ میں تو ایسا نہیں ہوتا ؟؟؟؟؟
ہماری جناب سے گزارش ہے کہ جب آلگور اور بش جونئیر ( Al Gore vs Jeorge bush) کے درمیان 2000،کے صدارتی انتخابات میں تنا زع  پیدا    ہوا . تو سپریم کورٹ نے جارج بش کے حق میں فیصلہ دیا ... الگور نے تو کوئی واویلا نہیں کیا .. انھوں نے تو یہ نہیں کہا کہ فیصلہ کہیں اور لکھا گیا ..انھوں نے سپریم کورٹ کے ججوں پر  کوئی تنقید نہیں کی ... بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر سر تسلیم خم کیا ....  موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ  ٹرمپ کے تارکین وطن کے خلاف پابندیوں کے  دو فیصلوں کو امریکی سپریم کورٹ نے مسترد کیا اور کہا کہ امریکی صدر نے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا ہے .. بلکہ اس سے پہلے ایک ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج نے امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف   حکم جاری کیا ... امریکہ میں تو کسی نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی دھمکی نہیں دی .... نہ کسی نے یہ کہنے کی جرات کی کہ سپریم کورٹ کو  اگزیکٹو کے کام میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ....
اس پروگرام میں شریک دوسرے بونے دانشور صاحب سے بھی سوال تھا ... عدلیہ کے بارے میں ،   لیکن جناب شروع ہو گے . فوج کے خلاف .... فرمایا کہ اس ملک میں پاک صاف ادارہ ایک ہی ہے ... سپریم کورٹ کو   چاہیے کہ ہر چار ، پانچ یونین کونسلوں پرایک  اڈیشنل جج اور دس ججوں پر   ایک ایک میجر اور کرنل مقرر کر دیں ... سب کچھ فوج کے حوالے کر دیں .. تو سب کچھ ٹھیک ہو جاۓ گا .... آپ بھی عدالت عالیہ پر برہم تھے کہ انھیں حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ...  جناب نے مزید فرمایا کہ مہذب ، جمہوری ملکوں میں ہر ادارہ اپنی اپنی حدود میں کام کرتا ہے ... کس قانون کی کتاب میں یہ لکھا ہے کہ چیف جسٹس مداخلت کریں ...
ہمارا دونوں سے سوال ہے کہ کس مہذب اور جمہوری ملک میں کوئی عدالت عالیہ سے سزا یافتہ شخص (چاہے وہ کوئی بھی ہو )  سڑکوں پر جلوس نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا ... عدالت عالیہ کے ججوں کی توہین کرتا ہے .. انکے فیصلے کو تعصب پر مبنی قرار دیتا ہے .... اپنے کارندوں سے ججوں اور انکے اہل خانہ کو دھمکیاں دلواتا ہے ...
فیصلہ قبول کرنے سے سر عام انکار کرتا ہے . فیصلے کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتا ہے ... سرکاری پروٹوکول استعمال کرتا ہے .. قوم کے پیسے سے چلنے والے اداروں اور عمارتوں کو اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتا ہے ... کون سا قانون ہماری صوبائی حکومتوں اور مرکزی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ حکمران اور انکے گماشتے خود تو علاج کیلئے ، برطانیہ اور امریکہ جائیں . جبکہ عوام کو صحت کی معمولی سہولیات بھی میسر نہ ہوں ... ان کے بچے تو بیرون ملک تعلیم حاصل کریں .  لیکن غریب کے بچوں کیلئے ، چھت اور چار دیواری کے بغیر سکول ہوں ... ملک میں آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی تک بھی نہ میسر ہو ...غریب اور کمزور انصاف کیلئے مارا مارا پھرے ...قوم کے خزانے ذاتی تشئیر پر خرچ کیے جائیں ....
کس مہذب اور جمہوری ملک میں ایسا ہوتا ہے ؟؟؟؟   اگر پاکستان کے غریب اور بے بس عوام کے خلاف ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم   پر آپ کو کوئی اعترا ض نہیں تو پھر آپ کو عدالت عالیہ کی مداخلت پر بھی   کوئی   اعترا ض   نہیں ہونا چاہیے !!!!!

Saturday, 23 December 2017

اتنی جلدی کیا ہے ؟

پنجاب کے عوام  کی دولت پر عیاشی کرنے اور اپنے سارے خاندان کو سرکاری خزانے سےپالنے  والے وزیر ا علیٰ جنھیں خادم  ا علیٰ   کہلوانے کا شوق ہے ....فرماتے ہیں کہ اگر انھیں عوام نے ایک اور موقع دیا تو پنجاب میں پینے کے پانی کا مسلہ حل کر   دیں گے .... جناب کو پنجاب پر حکومت کرتے یہ مسلسل دسواں سال ہے ... اگر ان دس سالوں میں جناب عوام کا یہ بنیادی مسلہ حل نہیں کر سکے .... تو اگلے دس سالوں میں بھی نہیں کر سکیں گے ...
جناب کا مسلہ وقت اور وسائل  نہیں بلکہ محدود سوچ   ہے ..عوام کے بنیادی مسائل (تعلیم -صحت -روزگار ) انکی ترجیحات میں شامل نہیں ...  جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں . کر گزرتے ہیں ...اس میں وہ کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرتے ...اور نہ وسائل کی کمی آڑے آنے دیتے ہیں ...
ان کے تنخواہ دار دانشور انھیں اور ان کے بڑے بھائی کو  شیر شاہ سوری قرار دیتے ہیں ... تاریخ کے اوراق سے ہم دیکھتے ہیں کہ شیر شاہ سوری نے مختصر مدت میں ہندوستان میں کیا نمایاں کارنامے سر انجام دئیے ....جن کا اعتراف ان کے مخالفین   نے بھی برملا کیا ......
شیر شاہ سوری   (1540سے لیکر 1545تک ) ہندوستان کا حکمران رہا ....ان پانچ سالوں میں اس نے چٹاگانگ  سے کابل تک سڑک بنوائی ... سڑک کے ساتھ ساتھ سراۓ بنوائیں ،   صاف پانی کیلئے کنویں  کھد  واۓ ....نئی کرنسی جاری کی (روپیہ ) .جو آج بھی پاکستان -بھارت کے علاوہ ایشیا کے 7 اور ممالک میں بھی مستعمل ہے .... نئی سول اور ملٹری انتظامی مشینری قائم کی .... پورے ہندوستان میں ڈاک کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا ...  (یاد رہے کہ تاریخ شیر شاہی  1580،   میں اکبر اعظم کے ایک درباری   وقائع نویس عبّاس خان سروانی نے لکھی ).....اور ان تمام کاموں کو تفصیل سے بیان کیا جو شیر شاہ سوری کے دور میں ہوۓ ....
ہمارے خادم ا علیٰ کے مسلسل اقتدار کا یہ دسواں سال ہے ... ان دس سالوں میں پنجاب کو کچھ ملا یا نہیں . لیکن لاہور کو ضرور تباہ و برباد کر دیا گیا ... اس تباہی کی ایک جھلک سموگ کی صورت میں ہم سب نے دیکھی ...جناب خادم نے سارا لاہور ادھیڑ کر رکھ دیا ہے .... دس سال کی حکمرانی کے بعد کہتے ہیں کہ اگر صاف پانی پینا ہے تو ایک موقع اور دیں ؟؟؟؟
حضور اتنی بھی کیا جلدی ہے !!!!!    پنجاب کے لوگ بہت صابر ہیں ... اچھے دنوں کے انتظار میں 70،   سال گزر گۓ ... پانچ سال اور سہی !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
نوٹ ....احمد رضا قصوری کہتے ہیں کہ ایک محفل میں کسی نے نواز شریف کو بتایا کہ جرنیلی سڑک (جی -ٹی -روڈ )شیر شاہ سوری نے بنائی تھی ... تو میاں صاحب نے پوچھا کہ شیر شاہ سوری کون تھا ؟؟؟؟

Wednesday, 20 December 2017

!!!!بیوقوف اور پاگل

سابق وزیر اعظم نے کل نیب عدالت میں پیشی کے بعد ، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوۓ فرمایا کہ ہم بیوقوف ، پاگل یا بھیڑ بکریاں نہیں کہ آنکھیں بند کر کے فیصلہ قبول کر لیں ..... سکھا شاہی نہیں چلے گی ... وہ عدل کیلئے تحریک چلائیں گے ....وغیرہ ،   وغیرہ ....
موصوف اپنے اور عمران خان کے کیس کا موازنہ کرتے رہے .  ان کا خیال ہے کہ کیونکہ وہ نا اہل قرار دئیے گۓ ہیں ... لہذا انصاف کا تقاضہ تھا کہ عمران خان کو بھی نا اہل قرار دیا جاتا ؟؟؟؟   جناب سابق نا اہل  وزیر اعظم صاحب ایک سادہ سی بات نہیں سمجھ پاۓ کہ وہ دھائیوں سے اقتدار میں ہیں .جناب  نواز شریف ، سابق گورنر (مرحوم )غلام جیلانی خان کے زیر سایہ پنجاب ایڈ ویزری   کونسل کے  ممبر رہے ....پنجاب کے وزیر خزانہ ،   دو بار پنجاب کے وزیر ا  علی   اور تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں ...... جبکہ عمران خان کبھی بھی کسی سرکاری یا عوامی عہدے پر فائز نہیں رہے .....  دوسرا 
عمران خان باہر سے پیسہ پاکستان لاۓ .... جبکہ نواز شریف اینڈ کمپنی نے اربوں روپے پاکستان سے باہر غیر قانونی طور پر   منتقل کیے ہیں ...جن کا وہ کوئی بھی تسلی بخش جواب نہ عدالت عالیہ کے سامنے ،   نہ جے -آئی -ٹی کے سامنے اور نہ اب تک نیب عدالت کے سامنے پیش کر سکے ہیں ... اس کا ایک ہی مطلب لیا جا سکتا ہے ..کہ نہ صرف دال میں کچھ کالا ہے ... بلکہ پوری دال ہی کالی اور تعفن زدہ ہے اور جسکی سڑاند پورے ملک میں پھیل چکی ہے ...
جہاں تک اس بات  تعلق ہے کہ سابق وزیر اعظم بیوقوف ہیں یا نہیں ؟؟؟   اس پر   ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے . جو ہم قارئین کی نظر کرتے ہیں ....
ایک شخص کی گاڑی ،   پاگل خانے کے سامنے پنکچر ہو جاتی ہے .. شام کا وقت ہوتا ہے . گاڑی اترائی پر کھڑی ہوتی ہے .. وہ شخص گاڑی سے باہر آتا  ہے .. وہیل کا جائزہ لینے کے بعد ،   گاڑی میں سے جیک نکالتا ہے ... جیک لگانے کے بعد وہیل کے نٹ کھولتا ہے اور سڑک پر رکھتا جاتا ہے .... ایک پاگل ،   پاگل خانے کی دیوار پر بیٹھا یہ سب کاروائی دیکھ رہا ہوتا ہے ... پنکچروہیل اتارنے کے بعد   دوسرا وہیل لگاتا ہے ... لیکن جب نٹ لگانے کیلئے ادھر   آ دھر   دیکھتا ہے . تو اسے نٹ نہیں ملتے ... گاڑی چونکہ اترائی پر کھڑی ہوتی ہے ،   نٹ لڑک کر کہیں نیچے چلے جاتے ہیں ...  گاڑی والا شخص بڑا پرشان ہوتا ہے اور   دائیں بائیں دیکھنا شروع کر دیتا ہے ....  دیوار پر بیٹھا ہوا پاگل اس سے پوچھتا ہے کہ بھائی صاحب کیا مسلہ ہے ... گاڑی والا جواب دیتا ہے کہ وہیل کے نٹ نہیں مل رہے ..  اندھیرا ہو چکا ہے ، کیا کروں ....پاگل اسے کہتا ہے کہ محترم اس کا بڑا آسان حل ہے ...  گاڑی کے تینوں وہیلوں سے ایک ایک نٹ اتار لیں اور اس وہیل کو لگا لیں ... آپ کا کام ہو جاۓ گا ... باقی صبح   نۓ نٹ خرید کر   لگا لینا .....گاڑی والا شخص حیرت سے پاگل کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ تمیں کیسے پتہ ہے .. تم تو پاگل ہو ...
وہ شخص جواب دیتا ہے کہ بھائی صاحب میں پاگل ضرور ہوں ،   بیوقوف نہیں !!!!!!!!!!!!!!!!!!
سابق وزیر اعظم صاحب بھی گاڑی والے شخص کی طرح سوال پوچھ رہے ہیں .... اب انھیں کون بتاۓ کہ وہ .........ہیں !!!!!!!

Friday, 15 December 2017

!!!!حقائق اور خوابوں کی دنیا

سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے کل لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے  ہوۓ   فرمایا کہ (اس طرح کے فیصلے قوموں کیلئے انتشار کا باعث بنتے ہیں ) وہ اپنے نا اہلی کے فیصلے کے بارے اظہار فرما رہے تھے !!!! اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے مزید دانشوری فرماتے ہوۓ کہا کہ   
ملک اب بد حالی کی طرف   بڑھنا شروع ہو گیا ہے ..
سی پیک کے منصوبے سست روی  کا شکار ہو گے ہیں ...
سٹاک مارکیٹ نیچے آ گئی ہے ...
حکومت غیر مستحکم ہونے کے اثرات لازمی پڑتے ہیں ....
یہ صورت حال افسوسناک ہے اور موجودہ حالات تسلی بخش نہیں ؟؟؟؟
نواز شریف صاحب کے خیال میں یہ سب کچھ صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ اب ملک کے وزیر اعظم نہیں رہے . حالانکہ حکومت ان کی جماعت کی ہے ، ان کا نامزد کردہ وزیر اعظم وہ سب کچھ کر رہا ہے .  جس کا حکم نواز شریف دے رہے ہیں ... پنجاب میں انکے بھائی وزیر اعلیٰ ہیں ... اگر پھر بھی ملک میں حالات تنزلی کی طرف جا رہے ہیں .  تو اس کا ایک مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن ) جان بوجھ کر ملکی حالات خراب کر رہی ہے ... نواز شریف عدالت علیہ کی طرف سے  نا اہل قرار دئیے جانے کی سزا پوری قوم کو دینا چاہتے ہیں .... اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی حکومت (خاقان عباسی ) کو چارج شیٹ کر   رہے ہیں کہ وہ ملکی معاملات چلانے میں نا کام ہوۓ ہیں .... 
اب   آئیں حقائق کی طرف ،،،،،،   
موجودہ حکومت اب تک 42 ارب ڈالر قرض لے چکی ہے ....
2013،   میں برآمدات  ساڑھے چوبیس ارب ڈالر تھیں .  جو اب گر کر ساڑھے اکیس  ارب ڈالر رہ   گئی ہیں ....
درامدات  جو ایک سال پہلے ساڑھے چوالیس ارب ڈالر تھیں . اب بڑھ کر 53،   ارب ڈالر ہو چکی ہیں ....
تجارتی خسارہ ایک سال پہلے تقریبا   24،   ارب ڈالر تھا .  اب بڑھ کر   ساڑھے 32،   ارب ڈالر ہو چکا ہے ....
دنیا میں خوراک کی کمی کے شکار 116،   ممالک میں پاکستان 106،   نمبر پر ہے .....
ملک میں بے روزگاری کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے .. حکومت پاکستان اس کے اعدادو شمار   دینے کو تیار نہیں ...
گردشی قرضہ 2013،   میں 480،  ارب روپے تھا ....آج یہ قرضہ بڑھ کر 824،   ارب روپے ہو چکا ہے .....
سرکاری اداروں ( پی - آئی -اے ،   ریلوے ،   سٹیل ملز   وغیرہ ) کا خسارہ پہلے 495،   ارب روپے سالانہ تھا . جو موجودہ حکومت کے دور میں بڑھ کر 1.2،   کھرب روپے   ہو چکا ہے ....
نواز شریف لوڈ شیڈنگ میں کمی کا کریڈٹ لیتے ہیں .. اس میں شک نہیں کہ ملک کے بڑے شہروں میں لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی ہے . لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ کمی کس قیمت پر کی گئی ہے ... پاکستانی ٹیکسٹائل   انڈسٹری کی تباہی میں   بجلی اور گیس کی ہوش روبا قیمتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے ... زراعت کی حالت وگرگوں ہے .  کسان اپنی فصل بیچنے کیلئے مارا مارا پھر رہا ہے ....
نواز شریف صاحب کی گفتگو سن کر ایسا لگتا ہے کہ موصوف خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں .... حکومت پاکستان کے پیش کردہ اعدادوشمار کچھ اور تصویر پیش کر رہے ہیں . جبکہ سابق وزیر اعظم کچھ اور راگ الاپ رہے ہیں ؟؟؟؟

!!!!عمران خان ، نواز شریف کیس .دونوں کا کوئی موازنہ نہیں

عمران خان اور جہانگیر ترین نا اہلی کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ میں کل سنایا جاۓ گا.   سپریم کورٹ میں اس کیس  کی سماعت   سے لیکر ، سپریم کورٹ کے فیصلہ محفوظ کرنے تک ،  ن  لیگ اور اسکے اتحادی ،جس میں قلم بیچ دانشور ، صحافی بھی شامل تھے اور اب بھی ہیں . یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ جیسے عمران خان اور میاں نواز شریف کے کیس ایک ہی نوعیت کے ہیں .
جب میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا . تو  (ن ) لیگ اور انکے حواریوں نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ   اب عمران خان کو بھی نا اہل قرار دیا جانا چاہیے . میڈیا میں موجود   کچھ خود ساختہ غیر جانبدار دانشوروں نے یہ کہنا اور لکھنا   شروع کیا کہ اگر سپریم کورٹ نے (Balance) کرنا ہے تو عمران خان کو بھی نا اہل قرار دینا ہو گا ...  اس سے زیادہ   گھٹیا    بات نہیں ہو سکتی کہ سپریم کورٹ کو انصاف کرنے کے بجاۓ ، (Balance)کرنے کا کہا جاۓ  !!!!
یہ بھی بد دیانتی ہو گی   اگر  یہ کہا جاۓ.   کہ عمران خان اور نواز شریف  کے کیس کی نوعیت   ایک ہی ہے ... نواز شریف   پنجاب کے وزیر اعلی اور 3 بار پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں .  جبکہ  عمران خان کبھی کسی سرکاری عہدے پر نہیں رہے ... اس لیے دونوں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ..... عمران خان پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کا کوئی الزام نہیں .... جبکہ دوسری طرف اربوں کی  کرپشن اور منی لانڈرنگ صاف   نظر  آتی ہے ....
عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی .  انھیں قبول ہو گا .....  ہمیں یقین ہے کہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہو گا ... اگر عمران خان نا اہل بھی ہو جاتے ہیں . تب بھی قوم عمران خان کی اس جدوجہد کو یاد رکھے گی .  جو انھوں نے کرپٹ مافیا کو بے نقاب کرنے اور انھیں کیفر کردار   تک   پہونچانے  کے لیے کی !!!!!