Sunday, 21 September 2025

پاک سعودی معاہدہ -چین اور افغانستان

پاکستان  اور سعودی عرب  کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے کیلئے کوششیں کافی عرصے جاری تھیں .2015، میں جب سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات  ،کویت ،مصر ،مراکش نے یمن کے خلاف فوجی کروائی شروع کی اس وقت بھی پاکستان سے فوجی مدد کی درخوست کی گئی تھی .اس وقت نواز شریف وزیر اعظم تھے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف .اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس پر بحث کی اور اتفاق راۓ سے یہ فیصلہ کیا کہ دو مسلم ممالک کی لڑائی میں پاکستان اپنی فوج نہیں بھیجے گا .گو اس وقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس پر نا راضگی کا اظہار کیا .لیکن اس بارے میں گفتگو ہوتی رہی .اس واقعہ کے بعد ہی ایک اسلامی فوج کا قیام عمل میں لایا گیا .جس کے سربراہ بعد میں راحیل شریف مقرر ہوۓ .جو ابھی تک سعودی عرب ہی میں ہیں .اس فوج کی تعداد کتنی ہے اور وہ کس قسم کے   جنگی سازوسامان سے لیس ہے .اسکے بارے میں کوئی معلومات جاری نہیں کی گئیں .
اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے خلاف نہیں .سعودی حکومت کے ایک ترجمان پہلے ہی اس کی وضاعت کر چکے ہیں کہ اس دو طرفہ معاہدہ کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں. ارض مقدس کی حفاظت کےنعرے صرف پاکستانی عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے لگاۓ جا رہے ہیں 
اسرائیل میں امریکی سفیر نے کل اپنے ایک بیان کہا ہے کہ امریکہ گلف ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے کہ حماس کی مکمل شکست کے بعد ،غزہ کی پٹی میں معاملات کیسے چلاۓ جائیں گے .اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے عربوں کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ اس خطے میں امن قائم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ غزہ کو فلسطینی آبادی سے مکمل خالی کرایا جاۓ .اگر ایسا ہوتا ہے تو ان عرب ممالک کو یہ خدشہ ہے کہ عوام انکے خلاف اٹھ کھڑے ہو سکتے ہیں .سعودی عرب کو اس اندرونی خطرے سے نمٹنے کیلئے پاکستانی فوج درکار ہو گی . غزہ سے فراغت کے بعد ،امریکہ ،اسرائیل اور گلف ممالک یمن میں حوتی جنگجووں کو بھی سبق سکھانا چاہتے ہیں .کیونکہ اس خطے میں یمن ہی وہ واحد ملک ہے جو ڈٹ کر ان سب کا مقابلہ کر رہا ہے  
حوتیوں کو شکست دینے اور یہاں سے ایران کا اثر و رسوخ ختم کرنے کیلئے یمن کے خلاف زمینی کاروائی ضروری ہو  گی .کیونکہ اسرائیل اور امریکہ فضائی حملوں سےانکا  کوئی خاص نقصان نہیں کر سکے .پاک ،سعودی دفاعی معاہدہ کا ایک مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ اگر یمن کے خلاف زمینی کاروائی کرنی پڑے تو پاکستانی فوج کو استعمال کیا جا سکے .اسلئیے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ معاہدہ امریکی رضامندی اور اجازت سے کیا گیا ہے .
امریکی صدر نے دو دن پہلے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر طالبان بگرام کا ہوائی اڈا امریکہ کے حوالے کر دیں تو انکی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے .جبکہ افغان حکومتی ترجمان نے کہا کہ ایسا کسی صورت نہیں کیا جا سکتا .یہ ایک طرح سے امریکی دھمکی ہے کہ اگر افغان حکومت ایسا نہیں کرتی تو طالبان کے خلاف کوئی کاروائی کی جا سکتی ہے .پاکستان ،ٹی -ٹی -پی کے حوالے سے طالبان سے نا راض ہے .جبکہ دوسری طرف امریکہ ،افغانستان میں چین کے بڑھتے ہوۓ اثر و رسوخ کی وجہ سے پریشان ....
امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان بھی کسی طریقے سے دوریاں پیدا کی جائیں .پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان اور چین کے تعلقات میں سرد مہری کی کیفیت طاری ہے .چین کو پاکستانی حکومت اور فوج سے کافی شکایات ہیں .یہی وجہ ہے کہ چین نے ریلوے کے M-1,منصوبے میں سرمایہ کاری سے انکار کر دیا ہے .اسکے ساتھ ساتھ چینی کمپینوں کو پیسوں کی ادائیگی میں بھی بہت سی مشکلات ہیں .
پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں .امریکہ سعودی عرب کو ساتھ ملا کر ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے .جس سے پاکستان ،چین اور افغانستان کے درمیان تعلقات اور خراب ہوں .
ایسا لگتا ہے  کہ امریکہ  خود پاکستان کو کچھ دینا نہیں چاہتا .گو اس نے پاکستان میں ہونے والے مظالم پر چشم پوشی اختیار  رکھی ہے .موجودہ حکومت اور اسکے پیچھے بیٹھے اصل حاکموں کو اس وقت امریکہ سے یہی کچھ درکار ہے .باقی جہاں تک مالی امداد کا تعلق ہے .وہ  بل ،سعودی عرب ادا کرۓ  گا .
اب یہ پاکستانی حکومت اور فوج کی مرضی ہے کہ وہ ایک قابل اعتماد دوست (چین )کو چھوڑ کر اس ملک کے ساتھ جانا پسندکرتے ہیں  .جس نے ہر مشکل وقت میں ہمیں دھوکہ دیا .
ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکمران اپنے وقتی اور ذاتی فائدے کیلئے پھر وہی کریں گے جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں .اس طرح یہ اپنی تجوریاں تو بھر لیں گے جبکہ ہمیشہ کی طرح اسکا  نقصان عوام کو برداشت کرنا پڑے گا . 

Saturday, 20 September 2025

پاک سعودی معاہدہ اور بھارت میں سعودی سرمایہ کاری

پاک سعودی دفاعی معاہدے کو لیکر اس وقت ملک میں ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے .ٹی -وی ،اخبارات اور سوشل میڈیاپر  ایک زلزلے آیا ہوا ہے .دہاڑی دار ،صحافی اور سرکاری دانشور ،حکومت اور انکے وڈے آبا جان کی شان میں قصیدے بیان کر رہے ہیں .تاریخ ساز معاہدہ ،پاکستان امریکہ اور اسرائیل کے سامنے کھڑا ہو گیا .ارض مقدس کے دفاع کیلئے پاکستان تیار ،سعودی عرب کو ایٹمی حفاظت فراہم کی جاۓ گی .وغیرہ وغیرہ .....
حالانکہ ابھی تک اس معائدے کی کوئی ایک شق بھی منظر عام پر نہیں آئی .جبکہ سعودی حکومت کے ایک ترجمان نے اس بات وضاحت کی ہے کہ اس معائدےکا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں .جہاں تک  پاکستان ،بھارت جنگ میں سعودی عرب کی مدد کا تعلق ہے .اس پر بھی سعودی حکومت نے کوئی بات نہیں کی .

اسی سال اپریل میں بھارتی وزیر اعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا .اس دورے میں بھارت اور سعودی عرب کے درمیان ایک معائدےپر دستخط کئیے گۓ .جس کے تحت سعودی عرب ،بھارت میں 100،بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرۓ  گا .50 ،بلین سے بھارت میں دو تیل صاف کرنے کے کارخانے لگاۓ جائیں گے .20 ،بلین ڈالر سے سڑکیں ،پل اور بندر گاہوں کو بہتر بنایا جاۓ گا. 15،بلین ڈالر دفاع اور سیکورٹی کی مد میں رکھے گے ہیں .اس میں دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان فوجی مشقیں ،دفاعی ٹیکنالوجی میں معاونت اور ڈرون کے شعبے میں تعاون بھی شامل ہے .

اسکے ساتھ ساتھ 10،بلین ڈالر -آرٹیفیشل انٹیلیجنس ،بائیو ٹیکنالوجی اور سپیس ٹیکنالوجی کیلئے بھی رکھے گۓ ہیں .اسکے علاوہ سعودی عرب5،بلین ڈالر ،انڈین فلم انڈسٹری میں بھی سرمایہ کاری کرۓ  گا .یہ سب کچھ کرنے کے بعد کیا سعودی عرب ،بھارت کے ساتھ جنگ میں پاکستان کا ساتھ بھی دے گا؟ سوچنے کی بات ہے .


اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ پاکستان امریکہ اور اسرائیل کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے .موجودہ حکومت ،فوج ،نوکر شاہی اور اشرافیہ امریکہ کے ہاتھ بندھے غلام ہیں .امریکہ کی خوش نودی کیلئے یہ اپنا تن -من .دھن قربان کرنے کو تیار ہیں .جس طرح ملکی معدنیات ،امریکہ کو اونے پونے داموں فروخت کی جا رہی ہیں .اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں کتنا دم خم ہے .

جہاں تک سعودی عرب کے دفاع کا تعلق ہے .وہ  1945،میں ہونے والے امریکی ،سعودی معاہدے کے تحت امریکہ کی ذمہ داری ہے . اس معاہدے کے مطابق ،سعودی عرب امریکہ اور یوروپ کیلئے تیل کی سپلائی کھلی رکھے گا اور اپنا تیل امریکی ڈالر میں فروخت کرۓ گا .اسکے بدلے امریکہ ،سعودی شاہی خاندان 
کا تحفظ کرۓ  گا .80،سال سے یہ معاہدہ قائم ہے .

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ ،نہ امریکہ کے خلاف ہے اور نہ اسرائیل کے خلاف . ہاں یہ سعودی عرب کے اندرونی خطرے یا زیادہ قیاس یہ ہے کہ یمن کے خلاف ہو سکتا ہے . اس میں امریکہ کی رضا مندی اور اجازت ضرور شامل ہے .امریکہ افغان حکومت سے خوش نہیں .امریکی حکومت نے کچھ دن پہلے ہی یہ تجویز پیش کی ہے کہ اگر افغان حکومت بگرام ایئر بیس انکے حوالے کر دے .تو طالبان حکومت کو تسلیم کرنےپر  غور کیا جا سکتا ہے .لیکن طالبان حکومت کے ترجمان نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے .امریکہ کافی عرصے سے پاکستان میں اڈے مانگ رہا ہے تاکہ طالبان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے .امریکہ کو طالبان کے خلاف کروائی کیلئے پاکستان کی مدد درکار ہے .

پاک ،سعودی معاہدے کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے .....


Friday, 19 September 2025

ہیں کواکب کچھ -نظر آتے ہے کچھ

پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بارے میں پاکستانی میڈیا میں  مبارک ،سلامت کا شور برپا ہے .بہت سے سرکاری دانشور اسے ایک اہم ترین پیش رفت قرار  دے رہے ہیں  .بعض کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے دور رس نتائج ہونگے .نہ صرف مشرق وسطیٰ ،بلکہ پاکستان ،بھارت تعلقات پر بھی ؟ گو کے ابھی تک دونوں ممالک کی طرف سے اس معائدے کی تمام شقوں یا نقاط کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے .کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے دفاع کی ذمہ داری اٹھاۓ گا .اگر سعودی عرب پر کسی ملک کی طرف سے حملہ کیا گیا. خاص طور پر اسرائیل کی طرف سے  تو پاکستان ،سعودی عرب کا دفاع کرۓ  گا . کسی بھی دانشور نے اس پر لب کشائی نہیں کی کہ پاکستان ،سعودی عرب کا دفاع کیسے کرۓ  گا .
کیا پاکستان اپنے ہتھیار اور ریڈر سسٹم ،سعودی عرب میں نصب کرۓ  گا .اپنا میزائل سسٹم سعودی عرب لیکر جاۓ گا .جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو پاکستانی فوج پہلے ہی سعودی عرب میں موجود ہے .اسکی تعداد کیا ہے .اسکے بارے میں کوئی معلومات ہمارے پاس نہیں ہیں .
اس سوال کا جواب اسلئیے اہم ہے کہ سعودی عرب کے پاس تمام ہتھیار امریکی ساختہ ہیں .امریکہ کی اجازت کے بغیر ،سعودی فوج کے علاوہ کوئی اور ملک یا فوج ،امریکی ہتھیار استعمال نہیں کر سکتی .اور نہ سعودی عرب ،امریکی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک کو ،امریکی ساختہ ہتھیار دے سکتا ہے .یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ جب کسی بھی ملک کو ہتھیار بیچتا ہے .تو ساتھ کچھ پابندیاں بھی  عائد کرتا ہے .مثال کے طور پر ،جب امریکہ نے پاکستان کوF-16 دئیے .تو ساتھ یہ پابندی بھی لگائی کہ یہ جہاز انڈیا کے خلاف استعمال نہیں کئیے جا سکتے .اور آج تک یہی صورت حال ہے .
2018، میں پاکستان نے ترکی سے 30, جدید ہیلی کاپٹر خریدنے کا معاہدہ کیا .اس ڈیل کی مالیت 1.5, ارب تھی .ان ہیلی کاپٹرز میں کیونکہ امریکی انجن استعمال ہو رہے تھے .لہذا امریکہ نے ترکی کو یہ ہیلی کاپٹر ،پاکستان کو فروخت کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا .اس طرح پاکستان یہ ہیلی کاپٹر حاصل نہ کر سکا .چھ سال امریکہ بہادر کی منت ترلے کرنے کے با وجود ہم یہ ہیلی کاپٹر نہ لے سکے .آخر کار ہمیں اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے .2025،میں چین سے ہیلی کاپٹر خریدنے پڑے .
2016، میں ترکی صدر طیب اردوان کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی کوشش ہوئی . اس بغاوت کی نا کامی کے بعد ،ترک حکومت نے اپنی فضایہ سے 680،سینئرپائلٹوں  کو بغاوت کے شبہے میں برطرف کیا .اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ،ترکی نے پاکستان سے پائلٹ انسٹاکٹرز کی درخوست کی .جو جونئیر پائلٹوںکو F-16,جہاز اڑانے کی تربیت دیں .لیکن امریکہ نے اسکی بھی اجازت دینے سے انکار کر دیا .کیونکہ امریکہ اور ترکی کے درمیان ہونے والے معاہدےکے مطابق ،کسی تیسرے ملک کے ہوا باز ،امریکہ کی اجازت کے بغیر ،امریکی ساختہ جہاز نہیں اڑا سکتے .
یہ مثالیں دینے کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ہمیشہ حقائق کو سامنے رکھیں .ہوائی باتوں اور جذباتی نعروں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا .پاک ،سعودی معاہدہ اصل میں کچھ اور ہے .دکھایا کچھ اور جا رہا ہے .سعودی عرب کے پاس موجود ،امریکی جنگی سازوسامان ،امریکی اجازت کے بغیر کوئی بھی استعمال نہیں کر  سکتا .اور اسرائیل کے خلاف اسکا استعمال ،ایسا تو سعودی سوچ بھی نہیں سکتے .کرنا تو دور کی بات ہے .
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد ،  جی -سی -سی اور او -ائی -سی ....نے جسطرح کا رد عمل  دیا ہے .اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عربوں نے امریکہ اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں .غزہ سے اب فلسطینوں کے انخلا کو کوئی بھی نہیں روک سکتا .ایسا لگتا ہے کہ غزہ سےفار غ ہو کر امریکہ اور اسرائیل ،یمن کا رخ کریں گے .کیونکہ یمن ہی وہ واحد عرب ملک رہ گیا ہے .جو ابھی تک ڈٹ کر امریکہ اور اسرائیل کا مقابلہ کر رہا ہے .شائد اسلئیے پاکستان کو ساتھ ملایا جا رہا ہے کہ اگر یمن کے خلاف زمینی کروائی کی ضرورت پڑے تو پاکستانی فوج کو استعمال کیا جا سکے  .گو  نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے دوران ،پاکستان یمن کے خلاف اپنی فوج بیھجنے سے انکار کر چکا ہے .
چونکہ موجودہ حکومت کو  اس وقت ،امریکہ کی خوشنودی  اور سعودی پیسہ درکار ہے .شائد اسلئیے سعودی عرب کے ساتھ یہ معاہدہ کیا گیا ہے .لیکن میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس معاہدےکا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے  ....حقیقت کیا ہے کچھ مہینوں میں سامنے آ جاۓ گی .

Wednesday, 17 September 2025

!کوئی امید بر نہیں آتی


میں نے دو دن پہلے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ قطر  کے دارالحکومت ،دوحہ میں ہونے والی کانفرنس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا  .تقریریں ہونگی ،دعوے کیے جائیں گے ،ضیافتیں اڑائی جائیں گی .فوٹو شوٹ ہونگے .لیکن اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی فوجی ،معاشی اور سفارتی کروائی نہیں ہو گی .کیونکہ سب عرب ممالک ، سواۓ (یمن )کے اور باقی مسلم ممالک کی لیڈر شپ کی اکثریت ،امریکہ کی نا راضگی مول لینے سے ڈرتے ہیں .بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا .کہ وہ امریکی غلامی میں خوش ہیں .ان سب کی اکثریت اسی میں خوش ہے کہ انھیں اپنے اپنے ممالک میں لوٹ مار کرنے اور یورپ و امریکہ (مغرب )میں جائیدادیں خریدنے ،اپنے بال بچوں کے ساتھ عیاشی کرنے کی اجازت ہے .باقی خزانے میں جو بچ جاتا ہے .وہ بطور خراج ،امریکہ اور برطانیہ لے جاتے ہیں .
اس میلہ مویشیاں کے بعد ان عرب لیڈروں نے اپنی جو تھوڑی بہت عزت تھی .وہ  بھی گنوا دی ہے .ان ممالک کے ساتھ بھی اب اسرائیل وہی کچھ کرۓ  گا .جو وہ غزہ ،لبنان اور شام کے ساتھ کر رہا ہے .کسی بھی قسم کی کروائی نہ کر کہ انہوں نے اسرائیل کو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ حضور آپ جو مرضی کریں .ہماری تابعداری میں کوئی فرق نہیں آۓ  گا .
ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ عرب ممالک کی رضامندی سے ہوا ہے .عرب ممالک کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ اب غزہ کو فلسطینی لوگوں سے خالی کروایا جاۓ گا .اسکے ساتھ ساتھ دریاۓ اردن کے مغربی کنارے کو بھی عربوں سے خالی کیا جاۓ گا .اس علاقے سے فلسطینی اردن کی طرف نکالے جائیں گے اور غزہ سے ،مصر کے علاقے سینائی کی طرف ؟ اس خطے میں امن کی صرف یہی ایک صورت ہے .اسکے بعد عرب ،اسرائیلی بھائی بھائی بن جائیں گے .راوی چین ہی چین لکھے گا .عرب بادشاہوں ،امیروں اور ڈکٹیٹروں کو بھی اجازت ہو گی کہ وہ (ٹرمپ رویرا )یعنی سابق غزہ میں ،ولا خرید سکیں اور وہاں آ کر کسینو میں جوا بھی کھیل سکیں .
میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں کہ یہ سب کچھ عربوں کی رضامندی اور ملی بگھت سے ہوا ہے ؟ اگر آپ تھوڑا غور کریں تو بات بہت واضح ہے .حملہ قطر پر ہوا .تو جوابی کروائی کس کا حق اور فرض تھا ؟ یقینآ قطر کا . ہم یہ مان لیتے ہیں کہ قطر جوابی فوجی کروائی نہیں کر سکتا تھا .لیکن وہ یہ تو کر سکتے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعاون ختم کر دیتے .اسرائیل کیلئے اپنی فضائی حدود بند کر دیتے اور تجارتی تعلقات منقطع کر دیتے ؟ انھوں نے ایسا تو کچھ نہیں کیا . کیا اس کیلئے انھیں کسی عرب ملک سے اجازت لینے کی ضرورت تھی ؟ قطری یہ سب کچھ حملہ ہونے کے فوری بعد کر سکتے تھے .لیکن انھوں نے نہیں کیا . اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ملے ہوۓ تھے . 
مراکش ،مصر ،اردن ،سوڈان ،متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں .ان ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تجارت بھی ہوتی ہے .ان سب کی فضائی حدود بھی اسرائیلی کمرشل جہازوں کیلئے کھلی ہے .کیا یہ سب ممالک اتنا بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کر دیتے ؟ فوجی کروائی تو بہت دور کی بات ہے . اگر ان سب نے یہ نہیں کیا تو اس سے کیا یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اندر سے یہ سب ملے  ہوۓ ہیں .یہ شور شرابہ صرف عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے ہے .
جب پاکستان پر بھارت نے حملہ کیا تو کیا پاکستان نے جوابی کروائی سے پہلے ،مسلم ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلایا تھا ؟ نہیں ایسا نہیں ہوا بلکہ پاکستان نے فوری جوابی کروائی کی .کیونکہ یہ ہمارا حق اور فرض تھا .اس کیلئے ہمیں کسی سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی 
اب بات آپکی سمجھ میں آ گئی ہو گی .کہ عرب امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ملے ہوۓ ہیں .فلسطینی خون کی قربانی سے وہ اپنے اپنے اقتدار کوطول  دینے کی کوشش کر رہے ہیں .یہ تو وقت ثابت کرۓ  گا کہ وہ اپنے اقتدار کو طول دے رہے ہیں .یا گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کر رہے ہیں ؟
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
مرزا غالب .

Sunday, 14 September 2025

!خراج بھی کسی کام نہ آیا


جی -سی -سی میں چھ عرب ممالک شامل ہیں .سعودی عرب ،بحرین ،قطر ،کویت ،عمان اور متحدہ عرب امارات . یہ تمام ممالک امریکہ سے ہر سال اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدتے ہیں .ان سب ممالک میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں .سب سے بڑا امریکی فوجی اڈا قطر میں ہے .جو ساٹھ ایکڑ پر محیط ہے . اس اڈے پر  سو جنگی  ہوائی جہاز ہر وقت تیار رہتے ہیں .اسکے علاوہ اس اڈے پر دس ہزار فوجی بھی تعینات ہیں .یہاں پر جدید ترین ریڈار اور پٹریاٹ میزائل بھی نصب ہیں .قطر  ہی وہ ملک ہے .جس پر اسرائیل نے چند دن پہلے حملہ کیا تھا .اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ یہ حملہ امریکی اجازت اور رضا مندی سے کیا گیا .
چند مہینے پہلے جب امریکی صدر ٹرمپ نے قطر کا دورہ کیا تو  قطری امیر نے  انھیں چار سو ملین ڈالر کا ایک جہاز تحفے (جسے خراج کہنا زیادہ مناسب  ہو گا )کے  طور پر دیا .اسکے علاوہ قطر نے امریکہ میں 1.2,ٹریلن ڈالر سرمایہ کاری کرنے کا بھی وعدہ کیا .مقصد اسکا یہ تھا کہ امریکہ انکی حفاظت کرۓ  گا .لیکن صد افسوس کہ امریکہ نے خراج وصول کرنے کے با وجود قطریوں کی کوئی مدد نہیں کی .
قطر کا دورہ کرنے سے پہلے امریکی صدر نے سعودی عرب کا بھی دورہ کیا تھا . اس دورے کے دوران سعودی عرب نے امریکہ سے142،ارب ڈالرکے جنگی ہتھیار خریدنے کا ایک ایگریمنٹ کیا .اسکے ساتھ ساتھ سعودی والی عہد نے امریکہ میں چھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی اعلان کیا .اسے بھی آپ ایک طرح کا خراج کہہ سکتے ہیں جو امریکہ کو پیش کیا گیا .سعودی عرب کے اس دورے کے دوران امریکی صدر نے بڑے طمطراق سے یہ اعلان بھی کیا کہ امریکہ اپنے عرب اتحادیوں کی قومی سلامتی کا ہر صورت دفاع کرۓ  گا .لیکن انھوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا .
شائد اب ان ممالک کے لیڈروں کو سمجھ آئی ہو کہ اسرائیل کے خلاف امریکہ کسی بھی عرب ملک کی مدد نہیں کرۓ  گا .امریکہ عربوں سے خراج ضرور وصول کرۓ  گا .لیکن اسرائیل کے سامنے وہ بھی بے بس ہے .
عرب لیڈروں کے بیانات تو بڑے زبردست آ رہے ہیں .لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سب ملکر بھی اسرائیل کے خلاف کوئی فوجی کاروائی کرنے کی ہمت اور صلاحیت نہیں رکھتے .ایک کام جو انھیں ضرور کرنا چاہئیے .وہ یہ ہے کہ جن ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں .وہ اسرائیل سے اپنا اپنا سفیر واپس بلا لیں .اسرائیلی سے تجارت بند کر دیں اور اسرائیل کیلئے اپنی اپنی فضائی حدود بند کر دیں .لیکن آپ دیکھیں گے کہ یہ سب ممالک یہ بھی نہیں کریں گے .کیونکہ امریکہ بہادر کی نا راضگی سے انھیں خوف آتا ہے .لہذا یہ سب بیان بازی کی حد تک رہیں گے اور کسی بھی قسم کا کوئی عملی اقدام نہیں کریں گے .
چند ہفتوں کے بعد یہ سب پھر امن کا راگ الاپنا شروع کر دیں گے .امریکہ کو  دیا جانے والا خراج (یعنی رشوت )میں اضافہ ہو جاۓ گا .
سابق امریکی سیکٹری آف اسٹیٹ ،ہنری کسنجر نے ایک مرتبہ کہا تھا . کہ امریکہ سے دشمنی آپکے لیے 
خطرناک ثابت ہو سکتی ہے .جبکہ امریکہ سے دوستی آپ کیلئے مہلک !
عرب لیڈروں کو یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئیے ؟

Saturday, 13 September 2025

!دن دھاڑے ڈاکے

اپریل 2022,کے بعد پاکستان میں لوٹ مار کا ایک بازار گرم ہے .نگران حکومت اور اسکے بعد بننے والی( ڈاکو) حکومتوں نے  ہر شعبے میں دن دھاڑے ڈاکوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا ہے .جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی .عوام کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے .جیسا نوآبادیاتی دور میں کیا جاتا رہا ہے .مثال کے طور پر ....1880,اور 1920, کے دوران برٹش انڈیا میں قحط سے  10,کروڑ افراد ہلاک ہوۓ .لیکن برطانوی حکومت نے قحط زدہ افراد کی امداد کیلئے  کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے .بلکہ اس دوران انڈیا سے گندم کی  ایکسپورٹ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا .بھوک سے مرنے والوں کی مدد کرنے کی بجاۓ .الٹا انہیں ہی مورود الزام ٹہرایا گیا کہ انڈیا کے لوگ سست اور کام چور ہیں .حکومت برطانیہ کا اس میں کوئی قصور نہیں کہ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں .اسلئیے انکی مدد کرنا حکومت کا فرض نہیں ؟
پچھلے سال مرکزی حکومت اور پنجاب حکومت نے گندم پیدا کرنے والوں کے ساتھ جو کچھ کیا .آپ کے خیال میں کیا وہ کسی منتخب حکومت کا کام تھا ؟ یا ایک نوآبادیاتی حکومت کا . جو طاقت کے  بل بوتے پر پاکستان کے عوام پر مسلط کی گئی ہے .جسے اشرافیہ کے مفادات زیادہ عزیز ہیں با نسبت عوامی مفاد کے !
پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں کامرس کالج بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے .اسکا جواز یہ دیا گیا ہے کہ حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے .عوام کیلئے ہیلتھ کارڈ بند کر دئیے گۓ ،  غریبوں کیلئے     لنگر  خانے اور پناہ  گاہیں بند  .ہسپتال پرائیویٹ کئیے جا رہے ہیں .وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں .جبکہ دوسری طرف پنجاب اسمبلی کے ممبران ،سپیکر ، ڈپٹی سپیکر ، وزرا ، گورنر کی تنخواؤں میں سینکڑوں گنہ اضافہ کیا گیا ہے .مرکزی حکومت نے بھی ،قومی اسمبلی ،سینیٹ ، نوکر  شاہی، وزرا ،اور وزیر اعظم ،صدر کے ساتھ ساتھ  ججوں کی تنخوؤں اور مراعات میں ہوش روبا اضافہ کیا ہے . کیا ان سب کیلئے حکومت کے خزانے میں پیسہ  ہے ؟اسی سے ہمیں یہ  اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انکی ترجیحات صرف انکا اپنا پیٹ ہے .نہ انہیں پہلے عوام کی فکر تھی .نہ  اب ہے اور نہ مستقبل میں ہو گی .
پچھلے تین سال سے پورے پاکستان میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے .اور بل دس گنہ زیادہ وصول کئیے جا رہے ہیں .لیکن کسی صحافتی طوائف کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی .عمران خان کے دور حکومت میں جو لوگ غریب عوام کے دکھ میں وزیر اعظم کا گریبان پکڑنے کی دھمکی دیتے تھے .وہ سکرین سے ایسے غائب ہوۓ ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ !
اسی طرح  چینی مافیا ہر سال عوام کو اربوں روپے کا چونا لگاتی ہے .پہلے حکومت سے چینی  برامد کرنے کی اجازت لی جاتی ہے .کیونکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی،پاکستان کی نسبت  سستی ہوتی ہے .اسلئیے حکومت سے چینی برآمد کرنے پر سبسڈی لی جاتی ہے .اس طرح اپنا نقصان چینی مافیا عوام کے خزانے سے پورا کر لیتی ہے .حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق کچھ  بڑے کار خانہ دار ایک کلو چینی بھی برآمد نہیں کرتے لیکن حکومت سے سبسڈی کی مد میں کروڑوں روپے مفت میں وصول کر لیتے ہیں .کوئی انکو پوچھنے والا نہیں .کیونکہ  انکی اکثریت پاکستان کی  سیاسی اشرافیہ سے تعلق  رکھتی ہے .عوام کی آواز بننے کے دعوے دار اسلئیے نہیں بولتے ،کیونکہ انکی روزی روٹی (جسکو  عیاشی کہنا زیادہ  مناسب ہو گا )،کا  انحصار اشرافیہ کی  خوش  نودی پر ہے .
 آخر میں ایک اور ڈاکے کی طرف   آپکی   توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں .جو  گیس کے بلوں کی مد میں کروڑوں لوگوں کی جیبوں پر ڈالا جا رہا ہے .پچھلے     مہینے میرا گیس کا بل2,670،روپے تھا . جو گیس  میں نے استعمال کی    اسکی قیمت تھی .652 ،روپے . اس پر 40،روپے میٹر کا کرایہ ،1150،روپے فکسڈ چارجز, 500،روپے  سیکورٹی ڈپازٹ اور  جنرل سیلز ٹیکس 331،روپے . اسطرح ٹوٹل بل تھا.... 2,670،روپے .
 یعنی حکومت 2,018،روپے ٹیکس کی مد میں   مجھ سے وصول کر رہی ہے .
پاکستان میں کروڑوں لوگوں کے ساتھ اسی طرح کیا جا رہا ہے .نہ صرف ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے بلکہ ہماری جیبوں پر بھی ڈاکے  ڈالے جا رہے ہیں .اس ،زرداری ، شریف ،خاکی .... فرعونی تکون نے کروڑوں لوگوں کا   جینا  حرام کر   رکھا ہے .
اس   شیطانی چنگل سے اگر  ہم نے اپنی جان   چھڑانی ہے تو ہمیں خود باہر    نکلنا پڑے گا .اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے حقوق کیلئے ،  قربانی ہمیں خود دینی پڑے گی .ورنہ غلامی کی ایک نہ ختم ہونے والی تاریک رات ہمارا مقدر ہو گی ؟
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا!

Saturday, 6 September 2025

!چوراں دےکپڑے -ڈاگاں دے گز

زیادہ عرصہ نہیں گزرا  درجنوں چینلز پر ہر روز ماتم  بر پہ  ہوتا تھا .سینکڑوں  دہاڑی دار جو قصر نفسی سے کام لیتے ہوۓ خود کو عوام کے ہمدرد کہتے تھے .با آواز بلند واویلا کرتے نہیں تھکتے تھے .کہ عمران خان کی حکومت نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے .مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے .اشیاء ضرورت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں .ایسا لگتا تھا کہ ،اخبار اور ٹی -وی اپنے مالکان سمیت عوام کے دکھ میں ،گھل گھل کر موت سے ہمکنار ہو جائیں گے .
اچانک وقت بدلتا ہے .عمران خان کی حکومت ختم کی جاتی ہے .پھر ایسا لگتا ہے کہ سینہ کوبی کرنے والوں پر موت کا سکوت طاری ہو گیا ہے .ایک (یونک )اسمبلی میں اعلان کرتا ہے .ویلکم ٹو پرانا پاکستان !مہنگائی جو پہلے  آسمان سے باتیں کر رہی تھی .وہ ساتواں آسمان پھاڑ کر اوپر نکل جاتی ہے .لیکن مجال ہے کہ کہیں سے کوئی آواز نکلے .عوام کے دکھ درد میں عمران خان کے گلے پڑنے والے ،حرام سے اپنا پیٹ بھرنے کے بعد ایسی نیند سوتے ہیں .جیسے موت کے گھاٹ اتر چکے ہوں .شائد انھیں وہ مغلظات اب سنائی نہیں دیتی جو سننے کیلئے انھیں بازار جانا پڑتا تھا .یا شائد انھیں اب روکڑا نہیں ملتا کہ وہ بازار جا کر عوام کی مشکلات جاننے میں اپنا قیمتی وقت ضایع کریں .
اس مضمون  کے عنوان کا مقصد آپ سب کی توجہ اس لوٹ مار کی جانب مبذول کروانا ہے .جو اس وقت ملک میں پوری شدت سے جاری و ساری ہے .اشرافیہ کی فرعونی تکون ،جس میں اقتدار پر قابض ٹولہ یعنی سیاستدان ،نوکر شاہی بمعہ خاکی افسر شاہی اور سرمایہ دار سب شامل ہیں .دونوں ہاتھوں سے عوام کی خون پسینے کی کمائی لوٹ رہے ہیں .انکے لیے سب کچھ مفت ہے اور جب عوام کو کچھ دینے کی باری آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے .انکے پیٹ کا جہنم بھرنے کیلئے خزانے میں کوئی کمی نہیں .اس ڈاکے میں مولوی بھی اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر رہا ہے اور عوام کو یہ گولی دی جاتی ہے کہ غریب اسلئیے غریب ہے کہ یہ خدا کی مرضی ہے .اپنی لوٹ مار کو خدا کی مرضی قرار دے کر اپنی نا جائز دولت کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں .
پچھلے تین سالوں میں یہ فرعونی مافیا صرف بجلی اور گیس کے بلوں میں عوام سے اربوں روپے لوٹ چکے ہیں .اگر ایک مرتبہ آپ کا بجلی کا بل دو سو سے ایک یونٹ زیادہ آ گیا تو آپ سے چونتیس روپے فی یونٹ بل وصول کیا جاۓ گا .بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اگلے چھ مہینے اگر آپ کا بل دو سو یا سو یونٹ سے بھی کم آتا ہے تو بھی آپ سے چونتیس روپے فی یونٹ کے حساب سے ہی بل وصول کیا جاۓ گا .یعنی آپ نے دو سو سے زاہد یونٹ استعمال کر کے جو جرم کیا ہے اسکا خمیازہ آپ کو اگلے چھ مہینے بگھتنا پڑے گا . 
جبکہ اشرافیہ میں سے کچھ کو چھ سو ،کسی کو بارہ سو ،کسی کو دو ہزار اور کسی کو تین ہزار یونٹ بجلی مفت ہے .کیوں جناب کیا اشرافیہ کی (نکی )یا (نکیاں )عوام نے رہن رکھی ہوئی ہیں .
اسی طرح گیس کے بلوں میں بھی (یکی )کی جا رہی ہے .ہر شخص اپنے گیس کے بل پر غور کرۓ تو اسے دن دھاڑے ڈاکے کی سمجھ آ جاۓ گی .جتنی آپ نے گیس استعمال کی ہے .اسکے علاوہ فکس چارجز اور پھر سیکورٹی ڈپازٹ بھی وصول کیا جا رہا ہے .ٹیکس اسکے علاوہ ہے .بندہ پوچھے کیا ہم انگریز کی غلامی کے دور میں رہ رہے ہیں .
ہماری آواز سننے والا کوئی ہے ؟ کیا یہ ملک اسی لئیے بنا تھا کہ اشرافیہ عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عیاشی کرۓ ..اور عوام کی اکثریت دو وقت کی روٹی کیلئے ترستی رہے ؟
ہمیں اخبار میں تلاش گمشدہ کا اشتہار دینا چاہیے ان لوگوں کیلئے .جو عمران خان کے ساڑے تین سالہ دور حکومت میں ، ،ڈاکٹر کے نسخے کے مطابق ، صبح ،دوپہر ،شام مہنگائی کا رونا روتے تھے .
اب تو ایسا لگتا ہے کہ .....پاکستان کا مطلب کیا ...... 
چوراں دے کپڑے .تے .ڈاگان دے گز !

Thursday, 4 September 2025

!لوگ کیاکہیں گے

ہماری زندگیاں یہ سوچتے گزر جاتی ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے .لوگوں کو خوش کرتے کرتے ،ہماری اپنی زندگیاں جہنم بن جاتی ہیں .لیکن لوگ ،اپنے ہوں یا پرائے ،کبھی بھی آپ سے خوش یا راضی نہیں ہوتے . 
ضروری یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے .لوگوں کیلئے نہیں بلکہ اپنے لیے !
آئیں دیکھتے ہیں اس بارے میں اہل علم و دانش کیا کہتے ہیں .
ایک ریڈ انڈین قول  کہ ،جب آپ  پیدا ہوۓ ،تو آپ روۓ  اور دنیا نے خوشی منائی تھی .اپنی زندگی ایسے جیو کہ جب آپ  مریں  ،تو دنیا روۓ اور آپ خوش ہوں  !
سب سے بڑی بیماری یہ سوچنا ہے کہ لوگ کیا  کہیں گے .
لوگ کیا کہیں گے .اس ایک جملے نے دنیا میں جتنے خوابوں کو تباہ و برباد کیا ہے .اتنا کسی اور نے نہیں کیا .
زندگی کی سب سے بڑی خوشی ،وہ کرنا ہے .جو لوگ کہتے ہیں کہ آپ نہیں کر سکتے ! والٹر بیگہارٹ .
میں پوری ایمانداری سے یہ کہتا ہوں کہ مجھے اس میں کبھی دلچسپی نہیں رہی کہ لوگ کیا کہتے ہیں .کیونکہ لوگوں کی راۓ موسم کی طرح ہوتی ہے .ایک لمحے آپ بہترین ہیں اور اگلے لمحے آپ کچھ بھی نہیں .(جوڈ بیلینگھم )...
مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں .میں جیسا بھی ہوں .مجھے پسند ہے .اورکسے  پروا ہے کہ لوگ کیا کہتے ہیں . (کاسٹر سمینیا )...
میں واقعی اس بارے میں نہیں سوچتا کہ دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں .میری کوشش یہ ہے کہ اس پر توجہ مرکوز کروں .جو میں کر رہا ہوں .بنیادی مقصد یہ ہے کہ کوشش کریں اور کامیاب ہوں . (لنڈو نورس )
لوگ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں .اسکی فکر کرنے کی بجاۓ .کیوں نہ کچھ ایسا کرنے میں اپنا وقت صرف کریں . جس کی ہر کوئی تعریف کرۓ  ....(ڈیل کارنیگی ).
جتنی میری عمر بڑھتی جاتی ہے .مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں .میں وہی کرتا ہوں .جو مجھے متحرک رکھتا ہے . (ٹومی لی )....
یہ ہمارے اختیار میں نہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کہتے ہیں . (سرفراز احمد )....
اگر آپ اس بارے میں فکر مند رہیں گے کہ لوگ کیا کہتے ہیں .تو آپ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے . 
(جوزف مرے )....
ہر وہ چیز جو لوگ کہتے تھے .میں نہیں کر سکتا .میں نے کر کے دکھائی ..(فلائیڈ مے ویدر، جونیئر)....
زندگی مختصر ہے .اس میں وقت ضایع نہ کریں کہ لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ....
آپ ہر کسی کو خوش نہیں کر سکتے .بہترین عمل جو آپ کر سکتے ہیں .وہ یہ ہے کہ اپنے آپ پر یقین رکھیں اور وہ کریں جسے آپ درست سمجھتے ہیں ....
میں آپ کو کامیابی کی کنجی نہیں بتا سکتا . لیکن میں آپکو یہ بتا سکتا ہوں کہ نا کامی کی کنجی یہ ہے کہ آپ ہر کسی کو خوش کرنے کی کوشش کریں ...(ایڈ شیرن )..
آپ اپنی زندگی دوسروں کی توقعات کے مطابق نہیں گزار سکتے !


Sunday, 24 August 2025

!تاریخ کا سبق

ایک جاپانی کہاوت ہے کہ ،
کوئی مشین ہو ،کوئی گھر یا کوئی تعلق ،انکی دیکھ بھال کرنا ہمیشہ کم خرچ ہوتا ہے .با نسبت انکی مرمت کے !
جس چیز کی آپ دیکھ بھال نہیں کرتے .آخر کر آپ اسے کھو دیتے ہیں .
 جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے .ہمارا وطیرہ یہ ہی رہا ہے .ہم نے کسی ادارے ، کسی عمارت ،کسی قاعدے ،کسی قانون کی دیکھ بھال نہیں کی ؟ ہمیں جو کچھ انگریز سے بنا بنایا ملا تھا .ہمارے خود ساختہ لیڈروں نے اسے بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا .اس بربادی کا سہرا کسی ایک شخصیت کے سر نہیں جاتا .یہ اجتماہی خود کشی تھی اور آج تک ہو رہی ہے .اس ظلم میں سیاست دان ،نوکر شاہی ،نواب ، جاگیردار ،پیر ،سرمایادار ،مذہبی موقع پرست اور سب سے بڑھ کر فوج شامل تھی اور آج بھی ہے .
یہ سب کچھ کیا گیا ،قومی سلامتی کے نام پر ؟   ان عقل مندوں کے خیال میں قوم اور قومی سلامتی دو الگ الگ چیزیں ہیں .یہی وجہ ہے کہ آج اٹھتر سالوں بعد بھی قوم ،ظلم و انصافی ،بھوک اور غربت کی چکی میں پس رہی ہے .جبکہ قومی سلامتی کا نعرہ مستانہ لگانے والے ،دولت کے انبار اکھٹے کرتے نہیں تھک رہے اور انکی اولادیں ،یورپ ،امریکہ ،کینیڈا اور آسٹریلیا میں عیاشی کر رہی ہیں .ان جونکوں کے خیال میں قومی سلامتی سے مراد انکی اور انکی آنے والی نسلوں کی سلامتی ہے . جبکہ عوام اسلئیے غریب ہے .(بقول مولوی کے ) کہ یہ خدا کی مرضی ہے .انکا خدا ،چوروں ،ڈاکوؤں ،لٹیروں ،ملاوٹ کرنے والوں ، منشیات فروشوں اور رشوت خوروں کو بے حساب دیتا ہے ؟  کیونکہ (بقول انکے )غریبوں کو ان سے سوال کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں .انھیں تقدیر پر راضی با رضا رہنا چاہیے .
کارل مارکس نے کہا تھا . کہ مذہب غریبوں کیلئے افیون ہے !   اسکی دلیل یہ ہے کہ ہمیشہ طاقتوروں نے 
مذہب کو غریبوں کو قابو کرنے کیلئے ،ایک تسکین آور دوا کے طور پر استعمال کیا ہے .اس  کام کیلئے مذہبی 
رہنما ہراول دستے کی طرح طاقتوروں کی راہ ہموار کرتا ہے اور اپنا حصہ وصول کرتا ہے .اس فرعونی گٹھ جوڑ 
کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو مذہبی نشہ سے سلاۓ رکھا جاۓ .تاکہ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں پر غور و فکر نہ کر سکیں .اور اپنے معاشی ٠ معاشرتی حالات کو بہتر بنانے کیلئے ، اپنے جائز حقوق کیلئے جدوجہد سے باز رہیں . 
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوام اپنی حالت سنوارنے کیلئے اٹھتے ہیں .اشرافیہ کا اسلام خطرے میں آ جاتا ہے .مولوی اشرافیہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے .اشارہ ہوتے ہی مدرسے کے معصوم بچوں کو لیکر سڑک پر نکل آتا ہے اور اپنے اور اشرافیہ کے پیٹ کو لاحق خطرے کے آگے مذہب کا بند باندھنے کا ڈونگ رچاتا ہے .ایک طرف کہتا ہے کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں .اور دوسری طرف ظلم کرنے والوں کا ساتھ دے کر لوگوں کو ظلم کے خلاف اٹھنے سے روکتا ہے .
اسلام دین ہے مذہب نہیں .دین اپنا نفاز چاہتا ہے .الله کی کبریائی دین کے ذریعے ہی قائم ہو سکتی ہے .مولوی کے خود ساختہ مذہب کے ذریعےنہیں .یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے .مذہب کی وجہ سے ہی مسلمان تقسیم در تقسیم ہوتے جا رہے ہیں .اشرافیہ (سرمایہ دار ،جاگیردار ،حکمران اور مولوی )یہ سب ایک مافیا ہیں .اسلام ،قومی سلامتی ،پاکستان یہ صرف کھوکھلے نعرے ہیں .جن کو یہ لوگ اپنے اور صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لئیے استعمال کرتے ہیں . ان سب کے خلاف جدوجہد ہمارا (عوام پاکستان ) کا حق ہے .

Tuesday, 19 August 2025

!کون سی ریاست

مشاہد حسین سید کسی تعارف کے محتاج نہیں .صحافی ،دانشور ، لکھاری،سیاست دان  اور نہ جانے کیا کیا ہیں .
آپ فرماتے ہیں کہ فوج کمزور ہونے سے ریاست تباہ ہو جاتی ہے .جناب نے یہ نہیں بتایا کہ کون سی ریاست ؟ اگر انکی مراد ریاست پاکستان ہے تو عرض ہے کہ اس ریاست کی تباہی تو اسی وقت شروع ہو گئی تھی .جب نوکر شاہی نے ،جاگیرداروں ،نوابوں ،پیروں ،مذہبی موقع پرستوں ،عدلیہ اور فوج کے ساتھ مل کر قائد اعظم کے پاکستان پر قبضہ کر لیا تھا . شروع دن سے انھوں نے پاکستان کو اسی طرح چلایا جس طرح انگریز بہادر چلا رہا تھا .یعنی عوام کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے .جبکہ اشرافیہ کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی حاصل تھی .
آج بھی عوام کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی .اس فرعونی مافیا نے پاکستان کے تمام وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے .انکے لئیے قومی خزانے کا شاہی دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے .جبکہ عوام غربت کی چکی میں پس رہے ہیں .
سید صاحب نے گھاٹ گھاٹ  کا پانی پیا ہوا ہے . سچ سے اتنا ہی ڈرتے ہیں جتنا ،کوا غلیل سے ڈرتا ہے .فوج کمزور ہونے سے کبھی کوئی ریاست تباہ نہیں ہوئی .ریاستیں تب تباہ ہوتی ہیں. جب آئین و قانون کو طاقت وار موم کی  ناک بنا دیتے ہیں .جب ظلم و نا انصافی کا بازار گرم ہوتا ہے .جب کرپٹ ٹولے حکمران بنا دئیے جاتے ہیں .جب لوٹ مار کو ادارے اپنی طاقت سے جائز بنا دیتے ہیں .جب عدالتیں کمزور کو انصاف دینے کی بجاۓ ظالم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتی ہیں . اور جب مشائد حسین جیسے لوگ سچ کیلئے کھڑے ہونے کی بجاۓ .طاقت وار کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں .اس وقت ریاست دم توڑ دیتی ہے .سوویٹ یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے .سید صاحب کو  شائد سوویٹ یونین کا بکھرنا یاد نہ ہو ...

Sunday, 17 August 2025

!سوچیں-غور کریں اور مثبت عمل کریں

زندگی کا المیہ یہ ہے کہ ہم جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں .لیکن ہمیں عقل دیر سے آتی ہے .
اپنی غلطیوں اور نا کامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنا زیادہ آسان ہوتا ہے .
ایمان داری ایک بہت قیمتی تحفہ ہے .کم ظرف اور چھوٹے لوگوں سے  اسکی توقع مت رکھیں .
مشکل یہ ہے کہ لوگ دو نمبر لوگوں کی عزت کرتے ہیں اور صاحب کردار لوگوں سے نفرت .
ایک بیج جو مٹی سے ڈرتا ہو .کبھی بھی درخت نہیں بن سکتا .تن آسانی ترقی کی دشمن ہوتی ہے .
ہمیشہ امید کو خوف پر ترجیح دیں .کیونکہ امید آپکو حوصلہ دیتی ہے .آپکا راستہ روشن کرتی ہے .اور راستے کی رکاوٹوں کو مواقوں میں تبدیل کرتی ہے .
دل کا سکون آپکی پہلی ترجیح ہونا چاہئیے .
کچھ لوگ کبھی بھی آپکی کامیابی پر خوش نہیں ہونگے .کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آپکی کامیابی انکی نا کامی ہے .
مسکراہٹ بجلی کی طرح ہے .اور زندگی ایک بیٹری !جب آپ مسکراتے ہیں تو بیٹری چارج ہوتی ہے .اسطرح ایک خوشگوار دن کی ابتدا ہوتی ہے .اسلئیے مسکراتے رہیں .
ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرنے کی بجاۓ . آگے بڑھنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں .یہی زندگی ہے 
جب آپ اندر سے خوش ہوں تو دنیا کی ہر چیز خوبصورت لگتی ہے .

Thursday, 24 July 2025

بڑی طاقتوں کے مفادات ہوتے ہیں دوستیاں نہیں

بڑی طاقتوں کے مفادات ہوتے ہیں دوستیاں نہیں . یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات بنیادی طور پر ذاتی یا جذباتی بندھنوں کے بجاۓ .بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی حکمت عملی کےمطابق چلتے ہیں .اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستیں اپنے اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں .جو وقت کے ساتھ بدل سکتے ہیں .
ایک برطانوی سیاستدان  لارڈ پا مر سٹن جو دو مرتبہ برطانیہ کے وزیر اعظم بھی رہے .کہا تھا کہ ....ہمارا کوئی ازلی حلیف نہیں اور نہ کوئی ہمارا دائمی دشمن ہے .بلکہ ہمارے مفادات ابدی اور دائمی ہیں .ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اتحاد اکثر عارضی ہوتے ہیں اور دیرپا دوستی کے بجاۓ باہمی فائدے پر مبنی ہوتے ہیں .
پاکستان کو دنیا کے ان ممالک میں شامل کیا جا سکتا ہے . جہاں پر قابض اشرافیہ نے ہمیشہ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی ہے .آزادی سے لیکر آج تک کی ہماری تاریخ اس کی گواہ ہے .قائد اعظم کی وفات کے بعد سے مسلط رہنے والے سیاسی اور فوجی ٹولے نے ہمیشہ اپنے مفادات کو قومی مفادات پر مقدم رکھا . عوام کو جھوٹے نعروں اور ترانوں کے پیچھے لگاۓ رکھا .
ایک اور گروہ جس نے اس ملک کی سمت کبھی درست نہیں ہونے دی .وہ ہے مذہبی رہنما ،خود ساختہ مذہب کے ٹھیکے دار . ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اس طبقے نے نہ کبھی اسلام کی کوئی خدمت کی ،نہ کبھی عوام کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی . ہاں انھوں نے اپنے اپنے فرقے کے مفادات کے تحفظ کیلئے خوب لڑائی لڑی . عوام کو انسانی ہمدردی ، حسن سلوک اور برابری کا درس دینے والے .خود اشرافیہ کی برابری کرنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں .اربوں کے گھروں اور کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومنے والے ، عوام کو صبر کی تلقین کرتے نہیں تھکتے .
جبکہ خود  اپنا حصہ بقدر جثہ ، وصول کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ....
نہ کوئی ہمارا ..آئرن برادر ہے . (چین ) ....نہ کوئی دینی بھائی (سعودی عرب )....اور نہ کوئی دوست ،بڑا بھائی (امریکہ )....سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں .جن کے تحفظ کیلئے وہ سب کوشاں ہیں .جبکہ ہماری حکمران اشرافیہ صرف اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کبھی ایک کے ترلے کرتی ہے کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے کے ....اس پنگ پانگ کے کھیل میں انھوں نے عوام کی اکثریت کو ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے .جس سے نکلنا اب نا ممکن ہوتا جا رہا ہے .

Sunday, 22 June 2025

.امریکی صدر نا قابل اعتبار ہیں

امریکی صدر کی پاکستانی آرمی چیف سے حالیہ ملاقات اس  لحاظ سےغیر معمولی تھی کہ اس سے پہلے کبھی کسی امریکی صدر نے کسی پاکستانی آرمی چیف کو وائیٹ ہاؤس میں دعوت نہیں دی تھی . گو اس سے پہلے ایوب خان ،ضیاالحق اور پرویز مشرف نے امریکہ کا دورہ  کیا اور انھیں وائیٹ ہاؤس میں امریکی صدر سے ملاقات بھی کروائی گئی .لیکن وہ صدر پاکستان کی حثیت سے دورے پر گۓ تھے -

کہا جاتا ہے کہ امریکی کسی کو کچھ بھی فری نہیں دیتے . اس خاص مہربانی کا بھی کوئی خاص مقصد ضرور ہو گا . کچھ دنوں یا چند ہفتوں میں یہ سامنے آ جاۓ گا کہ امریکی پاکستان سے کیا  چاہتے ہیں .کیا پاکستان سے صرف فضائی اڈے چاہییں یا پاکستان کی سرحد سے ایران میں دہشت گرد داخل کرنے کا کوئی پروگرام ہے ،جیسا کہ لیبیا اور شام میں کیا گیا-

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ دو ہفتوں میں یہ فیصلہ کریں گے کہ ایران کے خلاف کوئی فوجی کروائی کرنی ہے یا نہیں ؟ اگر امریکی صدر ایران کے خلاف کروائی کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر انھیں پاکستان کی مدد درکار ہو گی. کیونکہ اب اسرائیل اور امریکہ کا خیال ہے کہ ایران میں حکومت کی تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے . تاکے لیبیا،عراق  اور شام کی طرح اپنی مرضی کی کوئی حکومت قائم کی جاۓ .اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو ایران کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد داخل کر کے ملک کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا جاۓ .اس طرح گریٹر اسرائیل کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو جاۓ-

ہماری تاریخ ایسی غلطیوں سے بھری پڑی ہے . جس کا نقصان پوری پاکستانی قوم کو اٹھانا پڑا . کیا ہماری خاکی اشرافیہ اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پھر امریکی جنگ کا حصہ بنے گی ؟ 

وائیٹ ہاؤس کا یہ کھانا ہمیں بہت  مہنگا پڑ سکتا ہے .کیونکہ اگر ایران میں حکومت تبدیل ہوتی ہے . تو اگلا نشانہ پاکستان ہو گا . اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئیے . اسرایلیوں نے تو پہلے ہی یہ کہنا شروع کر دیا ہے .کہ ایران کے بعد پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمارا اگلا نشانہ ہو گا-

امریکہ نہ پہلے ہمارا دوست تھا نہ اب ہے اور نہ کبھی مستقبل میں ہمارا دوست ہو گا . تاریخ اسکی گواہ ہے . 65 کی پاک ،بھارت جنگ میں امریکہ نےہمیں جنگی سازوسامان کی فراہمی پر پابندی لگا دی .71 میں ہم امریکی ساتویں بحری بیڑے کا انتظار کرتے کرتے آدھا ملک گنوا بیٹھے .کارگل ہمیں امریکی دباؤ پر خالی کرنا پڑا . بالاکوٹ واقعے میں امریکہ اور یورپ ہم پر دباؤ ڈالتے رہے کہ ہم بھارتی جارحیت کا کوئی جواب نہ دیں. 7 مئی کو بھی امریکہ سمیت کسی مغربی ملک نے بھارت کی مذمت نہیں کی . پاکستان فضایہ کی شاندار حکمت عملی اور جوابی کروائی نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا . تو بھارت کے کہنے پر امریکہ نے جنگ بندی کروا دی . امریکی صدر اب اسکا  کریڈٹ لیتے ہوۓ .نوبل پیس پرائز کا مطالبہ کر رہے ہیں . انہیں غزہ میں جاری اسرائیلی قتل و غارت گری کی کوئی پروہ نہیں . جہاں پر 60 ہزار سے زائد مظلوم اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں زخمی ہیں . اور لاکھوں بھوک سے مر رہے ہیں-

امریکہ نے کبھی بھی اپنے معاہدوں اور وعدوں کا پاس نہیں کیا .تاریخ اسکی گواہ ہے . 1778 اور 1871 کے درمیان امریکہ نے مقامی ریڈ انڈین کے ساتھ کوئی 500، معاہدے کیے . ان میں سے کسی ایک پر بھی انھوں نے مکمل عمل درآمد نہیں کیا .ریڈ انڈین کہتے تھے-

.“White man speaks with a forked tongue”

چیف صاحب آپکو بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے -     

Friday, 20 June 2025

!تاریخ کے اوراق سے

یروشلم جسے مسلم بیت المقدس کہتے ہیں .حضرت عمر فاروق کے زمانے میں637,عیسوی میں فتح ہوا .جب حضرت عمر شہر میں داخل ہوۓ .تو انھوں نے ہیکل کے بڑے پادری سے یہودیوں کے بارے میں پوچھا . پادری نے جواب دیا کہ شہر کے اندر کوئی یہودی موجود نہیں .رومن گورنر نے تمام یہودیوں کو شہر بدر کر دیا تھا . حضرت عمر نے اپنے لشکر سے کسی کو شہر سے باہر بیھجا کے وہ یہودیوں کو لیکر آے. اس  طرح حضرت عمر نے شہر کے اندر 80 یہودی خاندان  آباد کئیے- 637,عیسوی سے لیکر 1948, تک یہودی کبھی بھی فلسطین میں اکثریت میں نہیں رہے-

پہلی جنگ عظیم کے دوران  برطانوی حکومت نے جرمنی کے خلاف یہودی حمایت اور مالی امداد حاصل کرنے کیلئے .یوروپ کے یہودیوں سے یہ وعدہ کیا کہ وہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کیلئے انکی مدد کریں گے.

 برطانوی حکومت کے ایک نمائندے لارڈ بیلفور نے1917,میں  ایک ممتاز یہودی بینکر کو ایک خط لکھا جس میں یہ کہا گیا کہ برطانیہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کیلئے ہر ممکن مدد کرے گا .اگرچہ اس وقت فلسطین سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا .اور برطانیہ کا اس علاقے پر کوئی کنٹرول نہ تھا.

پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1922, اور 1935, کے درمیان برطانیہ نے یوروپی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کروانے میں پوری مدد فراہم کی برطانیہ نے یہودیوں کو اسلحہ ،ٹریننگ اور مالی امداد دی.

جب اسرائیل کے قیام کا اعلان 1948, میں ہوا تو اسکے ساتھ ہی فلسطینیوں کی بے داخلی کا بھی  آغازہو گیا . اس دوران ساڑے سات لاکھ سے زائد مقامی فلسطینیوں کو بے دخل کیا گیا .انکے گھروں کو مسمار کیا گیا .قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا . آج جو فلسطینی غزہ اور اردن میں آباد ہیں .یہ ان ہی لوگوں کی اولاد ہیں .جنھیں 1948, میں انکے گھروں سے زبردستی نکالا گیا تھا.

عرب -اسرائیل جنگ کے دوران جو1967,میں ہوئی –  اسرائیل نے شام ،اردن اور مصر پر بیک وقت حملہ کیا اور 6, دنوں کی جنگ کے بعد تینوں ملکوں کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا .اسی جنگ کے دوران اسرائیل نے بیت المقدس جو اس وقت اردن کا حصہ تھا . پر بھی قبضہ کر لیا .جو آج تک برقرار ہے.

عرب اسرائیل جنگ-جو کے1973,میں  شام ،مصر اور اسرائیل کے درمیان ہوئی .مصریوں نے صحرا سینا  کا کچھ حصہ دوبارہ حاصل کر لیا . جنگ کے بعد امریکہ نے مصر اور اسرائیل کے درمیان دوستی کا معائدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا . مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض ،صحرا سینا کا سارا علاقہ واپس لے لیا .

فلسطین کا مسلہ صرف فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان نہیں ہے . یہ عربوں -اسرئیلیوں – یورپ اور امریکہ کے درمیان ہے .جب تک امریکہ نہیں چاہے گا .یہ مسلہ حل نہیں ہو سکتا . سابق امریکی صدر جو بائیدن نے 1986, میں ایک تقریر کرتے ہوۓ کہا تھا .کہ اگر مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نہ ہوتا .تو ہمیں ایک اسرائیل خود ایجاد کرنا پڑتا.

کیا عرب خود یہ مسلہ حل کر سکتے ہیں ؟ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے .اسکا جواب ہے کہ وہ کر سکتے ہیں .اگر عرب متحد ہو کر آواز بلند کریں . فوجی اور اقتصادی لحاظ سے عرب ایک اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتے .اسکی بنیادی وجہ ہے .ان ممالک میں غیر نمائندہ حکومتیں .پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور فرانس نے کچھ ایسے ملک اس خطے میں قائم کیے .جن کا اس سے پہلے کوئی وجود نہ تھا .اور ان ممالک میں اپنے ایجنٹ حکمران مسلط کیے آج بھی انکی اولادیں ان ممالک میں بر سر اقتدار ہیں .یہ حکمران اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے سر گرم عمل رہتے ہیں . انکا مقصد حیات صرف اپنے اقتدار کا تحفظ ہے .پہلے یہ برطانیہ کے غلام تھے .آج یہ امریکہ کے غلام ہیں.

لبنان نام کا کوئی ملک نہیں تھا .یہ ملک فرانس نے پہلی جنگ عظیم کے شام سے الگ کر کے قائم کیا .اسی طرح اردن نام کا کوئی ملک نہیں تھا .اور نہ عراق نام  کا کوئی ملک تھا اورنہ  سعودی عرب نام کا کوئی ملک تھا .یہ ممالک برطانیہ نے اپنے ان وفاداروں کو بنا کر دئیے . جنھوں نے ترکوں کے خلاف ان کا ساتھ دیا تھا .اسی طرح کویت بھی انگریز کا بنایا ہوا ملک ہے .جب تک برطانیہ اور امریکہ کے ایجنٹ ان ممالک پر قابض ہیں .اسرائیل کے خلاف عربوں کا کوئی متحدہ محاذ قائم نہیں ہو سکتا اور نہ فلسطین ایک آزاد مملکت بن سکتا ہے.

امید کی کرن ،فلسطینیوں کا جذبہ حریت ہے .جس نے تمام دنیا کے پسے ہوۓ ، نا امید ،دل شکستہ کروڑوں لوگوں کے دلوں میں امید کی شمعیں روشن کر دی ہے . سلام ہے انکی جرت کو . جس  اسرائیل کا مقابلہ تمام عرب ملک مل کر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے .اس کا مقابلہ پچھلے سولہ مہینوں نے جس بہادری ، ہمت و جرت سے کر رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے.

امریکہ اور یورپ کی مالی ،سفارتی اور اسلحی مدد کے باوجود اسرائیل حماس کو مکمل طور پر کچلنے میں ناکام رہا ہے .اور نہ ابھی تک حماس کے قبضے سے اپنے قیدی چھڑوا سکا ہے .اسرائیل کی تمام تر بربریت ، عرب حکمرانوں کی بزدلی اور بے حسی -بھی غزہ کے مجاہدوں کے پاۓ استقلال میں لرزش نہیں لا سکی .سلام ہے ان یمنی جوانوں کو جو بھوک و ننگ اور وسائل کی کمی کے باوجود اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ ڈٹ کر کھڑے ہیں .وہ امریکہ ،برطانیہ اور اسرائیل کی فوجی طاقت سے مرغوب ہونے کی بجاۓ .جوابی وار کر رہے ہیں .یہ مجاہد عزم و ہمت کی جو لا زوال داستان رقم کر رہے ہیں .وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہے گی . انشاللہ !

اب سوال ہے کہ ہم ،عام لوگ فلسطین کے مظلوم لوگوں کیلئے کیا کر سکتے ہیں .یہ حقیقت ہے کہ ہم بندوق اٹھا کر غزہ نہیں جا سکتے . ہاں ہم انکے کیلئے اپنی آواز ضرور بلند کر سکتے ہیں . جس طرح امریکہ ،یورپ ، جاپان ،ملائشیا ، انڈونیشیا ، آسٹریلیا ،بنگلادیش اور دنیا کے دوسرے ممالک میں پر امن مظاھرے ہو رہے ہیں .ہم بھی انکی طرح اپنی آواز بلند کریں .اور اپنی اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کے وہ مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کیلئے اقوام متحدہ میں آواز اٹھائیں .اور جہاں جہاں دنیا میں ہم رہتے ہیں .اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں . قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے .

Thursday, 19 June 2025

کیا ہم پھر امریکی جنگ کا حصہ بنیں گے ؟

جو قوم تاریخ کو نظر انداز کرتی ہے . اسکا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقبل ! 
 یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بڑے بڑے ہنگاموں اور فتنوں میں ،پہلا نقصان سچائی کا ہوتا ہے .کیوں ؟ کیونکہ  ظالموں اور جابروں کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے مطابق حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی صلاحیت  رکھتے ہیں .سچائی کے بغیر ہم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط . سچائی نہ ہو تو باقی صرف جھوٹ اور نہ انصافی ہی بچتی ہے .
ایران کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے . اس پر اگر آپ غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ طاقتور کس طرح اپنے مفادات کیلئے جھوٹ کو سچ بنا کر نہ صرف اپنے عوام بلکہ دنیا کے باقی لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں .
یہی کچھ عراق ،لیبیا ،شام اور سوڈان میں کیا جا چکا ہے . ایران کے خلاف بھی اسی طرح کے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے .مقصد یہ ہے کہ ایران کی حکومت کو اتنا کمزور کرر دیا جاۓ کہ ملک میں افراتفری پھیل جاۓ اور پھر باہر سے کراۓ کے دہشت گرد ایران میں داخل کر کے حکومت کا تختہ الٹ دیا جاۓ . اور عراق ، شام،لیبیا اور سوڈان کی طرح ایران کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں .تاکے مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار ہو اور عراق ،شام اور لیبیا کی طرح تیل کے ذخائر پر امریکہ کا قبضہ ہو جاۓ . اس طرح چین اور روس کا اثر و رسوخ بھی ایران میں نہ صرف کم بلکہ مکمل ختم ہو جاۓ گا . متحارب گروہ آپس میں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کیلئے دست و گریبان راہیں گے اور امریکہ آسانی سے تیل کی دولت لوٹ کر اپنا پیٹ بھرتا رہے گا .
عرب حکمرانوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ جنگ ایران پر ختم نہیں ہو گی .انکی بھی باری آنی ہے .اگر انھوں نے اسی طرح آنکھیں بند کیے رکھیں تو نہ لبنان رہے گا ، نہ شام ، نہ عراق ،نہ اردن ، نہ مصر ، نہ کویت اور نہ سعودی عرب ؟
پاکستان کے آرمی چیف اس وقت امریکی صدر سے لنچ پر ملاقات کر رہے ہونگے . تاریخ میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ امریکی صدر کسی بھی ملک کے آرمی چیف سے ملاقات کرۓ گا . یہ ملاقات بلا وجہ نہیں ہو رہی . امریکی صدر کو عاصم منیر سے کچھ خاص چاہیے .اسلئیے اتنی مہربانی ہو رہی ہے . گو اس سے پہلے بھی پاکستانی آرمی چیف امریکی صدور سے ملتے رہے ہیں .لیکن وہ آرمی چیف کی حثیت سے نہیں بلکہ صدر پاکستان کی حثیت سے . مثال کے طور پر ایوب خان دو مرتبہ امریکہ گۓ ایک بار صدر کینیڈی اور دوسری بار صدر لینڈن جا نسن کی دعوت پر . صدر ضیاالحق کو صدر ریگن نے دورے کی دعوت دی .صدر مشرف نے ،امریکی صدر بش جونیئر کے دور میں امریکہ کا دورہ کیا .
ایک بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آرمی چیف کی امریکی صدر سے یہ ملاقات ایران کے تناظر میں ہو سکتی ہے .اس ملاقات کا پاکستان کے اندرونی حالات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہو سکتا .کیونکہ امریکی متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں فوجی جنرلز سے بات کرنا انکےلئے زیادہ آسان ہوتا ہے .پاکستان میں حکومت جس کی بھی ہو .امریکہ کو اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے .
امریکی صدر کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کرنا چاہتے ہیں .اس مقصد کیلئے انھیں پاکستان کی مدد درکار ہو گی . ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر اس بارے میں جنرل عاصم منیر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں .تاکے پاکستان سے ایران کے خلاف ایک اور محاز کھولا جا سکے . اور ان بلوچوں کو جو ایران کے خلاف ہیں .انھیں ایرانی حکومت کے خلاف استعمال کیا جاۓ .
ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ جنرل عاصم منیر ایران کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ بنیں گے یا نہیں . لیکن اگر پاکستان امریکی اتحاد میں شامل ہو کر ایران کے خلاف کسی کاروائی کا حصہ بنتا ہے .تو یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے اچھا نہیں ہو گا . ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہماری ایران کے ساتھ لگنے والی سرحد بھی محفوظ نہیں رہے گی .اور اسرائیلی ہمارے سر پر بیٹھے ہونگے .
اسرائیل کو ہمارا ایٹمی پروگرام بھی بہت کھٹکتا ہے اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ اسرائیل ایک بار پہلے بھی ہماری ایٹمی تنصیبات پر حملے کی کوشش کر چکا ہے .اس مقصد کیلئے وہ ہمیشہ بھارت کی مدد کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے . اسکے علاوہ پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر بھی بات ہو سکتی ہے . ہو سکتا ہے امریکی صدر دونوں معاملات پر ہمارے آرمی چیف کو قائل کرنے کی کوشش کریں . امریکہ کیا چاہتا ہے بہت جلد سامنے آ جاۓ گا . کیونکہ امریکہ جس طرح اپنے بحری بیڑے اور جنگی ہوائی جہاز ایران کے قریب اکھٹے کر رہا ہے .اس سے تو لگتا ہے کہ ایران پر جلد امریکی حملہ متوقع ہے .
دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بن کر پہلے بھی ہم نے اپنا ہی نقصان کیا تھا .کیا ایران کے خلاف امریکی اور اسرائیلی جنگ کا حصہ بن کر ہم وہی غلطی دہرانے جا رہے ہیں ؟
یا ہم یہ ثابت کرنے پر تلے ہوۓ ہیں .کہ ہم وہ ہیں جو تاریخ سے کبھی نہیں سیکھیں گے اور بار بار وہی غلطی کریں گے .جس سے پہلے بھی بارہا نقصان اٹھا چکے ہیں.

Friday, 6 June 2025

Yajuj Majooj (Gog Magog).

Yajooj Majooj is not a mythical nation or a group of people who will come in the future to destroy the whole world. They are in every country that controls governments, big landlords, bankers, stock owners, media owners, Kings, Amirs, dictators, and the elite.

If one looks at the third-world countries, especially the Islamic world, who perpetrate chaos and violence? The elite who own and control everything. In the subcontinent, there is another group that can be included: Yajooj Majooj, Pirs, and religious leaders.

Gog Magog is mentioned in the Jewish and Christian traditions too.

Throughout the Middle Ages, Vikings, Huns, Khazars, Mongols, Turanians some other nomads and even the Lost tribes of Israel were identified as Gog and Magog. Not so long ago, Communist Russia and China were called Gog and Magog.

Yajooj Majooj mentioned in 2 chapters of the Holy Quran. Chapter 18 Al Kahaf and Chapter 21 Al Anbiya.

Al Kahaf verse 94.

قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَىٰ أَن تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا .94

“They informed him: “O Zal Qarnain, indeed, here we have an elite group of perpetrators of chaos and violence (یاجوجَ و ماجوجَ مفسدونَ) in our land; so what about us offering you recompense if you create between them and us a protective division.” (translation by Aurangzaib Yousafzai)

Al Anbiya verse 95–96

وَحَرَامٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ‎﴿٩٥﴾‏ حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُم مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ ‎﴿٩٦﴾

21:95-96 “It becomes a state of prohibition (حرام) imposed upon those communities (علیٰ قریۃ) whose violation of our laws have sunk into disgrace and oblivion (اھلکناھا), that they can’t regain their former status (یرجعون), unless the perpetrators of corruption in their societies (یاجوج و ماجوج) are conquered/overcome (فُتحت) and they are plucked apart from all higher posts of power and authority (من کل حدب) and thrown away by cutting into pieces (ینسلون).” (translation by Aurangzaib Yousafzai).

Hebrew word (gag), usually meaning roof or rooftop:

Since a society was a “house,” its “rooftop” referred to that society’s governing council. The elite.

Gog Magog: the Rooftop and Place Of The Rooftop

The elite of a society are those in the upper classes or those who metaphorically live on the roof (top) of society. Those who control the institutions and wealth/well-being of a nation. Once these elite/Gog Magog are corrupted and only benefit each other rather than society as a whole, they must be purged by that society, which has been impoverished and destitute by these elites, otherwise, no nation can regain its former heights and glory. A bloody revolution is required to purge the nation from this scum.

This is my understanding of Yajooj Majooj (Gog Magog).

Thursday, 5 June 2025

!آنکھیں کھلی تو

 ڈیسمنڈ ٹوٹو ،جنوبی افریقہ کے سیاہ فام مذہبی رہنما اور انسانی حقوق کے علمبردار تھے .انکی ساری زندگی جنوبی افریقہ کی اکثریت کے بنیادی انسانی حقوق کی جدوجہد میں گزری .  وہ ساری زندگی سفید فام اقلیت کی نسلی امتیاز کی پالیسی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے .1984 میں انھیں نوبل پیس پرائز سے نوازا گیا . وہ 2021,میں فوت ہوۓ .
انھوں نے ایک بار کہا کہ ،جب سفید فام مشنری افریقہ آۓ .تو انکےپاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمین ،یعنی تمام وسائل . انھوں نے کہا کہ آؤ آنکھیں بند کرو .ہم سب ملکر دعا کرتے ہیں .جب ہم نے آنکھیں کھولی تو کتاب ہمارے پاس تھی اور ساری زمین اور وسائل انکے پاس .
پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا .گو ہماری اشرافیہ نے ہمارے ہاتھ میں کتاب تو نہیں پکڑائی .لیکن انھوں نے حربہ وہی استعمال  کیا جو انکے آقا انگریز نے انھیں سکھایا تھا .یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو .مغربی پاکستان میں ان کا یہ حربہ کافی  کامیاب رہا .اس خطے کے لوگوں کو ،نوری ،ناری اور خاکی اشرافیہ نے ،علاقائی لسانی اور مذہبی تفرقہ بازی میں ایسا الجھایا کہ ہم لٹیروں کے خلاف متحد ہونے کی بجاۓ آپس میں لڑتے رہے .
لیکن مشرقی پاکستان میں انکا یہ حربہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا .انکی آنکھیں 1970،ہی میں کھل گئیں .اور انھوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا .گو اس میں بھی زیادہ  قصور مغربی پاکستانی اشرافیہ کا تھا .
مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے بعد بھی انکی روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی .اس اشرافیہ نے پہلے سے زیادہ دیدہ دلیری ،خود غرضی سے فسطائی ہتھکنڈے جاری رکھے .اگر غور کریں تو آج تک انکے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی . اس زمانے میں بھی یہ سمجتھے ہیں کہ پاکستان کے عوام کو کھوکھلے نعروں ، جھوٹی تاریخ اور طاقت کے بے دریغ استعمال سے دبایا جا سکتا ہے .
ڈیسمنڈ ٹوٹو نے جو کچھ سفید فام مشنریوں کے بارے میں کہا تھا .ویسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے . اس اشرافیہ نے ہمیں کھوکھلے نعروں اور جھوٹھی تاریخ میں ایسا الجھایا کہ اب جب ہماری آنکھ کھلی ہے تو ہمارے ہاتھ خالی ہیں اور تمام وسائل پر یہ قابض ہیں.